Thursday 11 October 2012

Ghunda gardi Aur Sahafat


By: Taqveem Ahsan Siddiqui

غنڈہ گردی اور صحافت

تقویم احسن صدیقی
 

چلیۓ صاب آج محترم جناب عطاالحق قاسمی صاحب نی اعتراف جرم کر ہی لیا. اپنی طرف سے جس "راز" کا انکشاف انہو نے آج اپنی تحریر میں کیا، وہ تو قوم پر کیی سالوں سے منکشف تھا. اور وہ تھا محترم کی تحریک انصاف سے بے پناہ نفرت، جو کے پچھلے کیی سالوں سے ان کی تمام تحریروں میں صاف عیاں تھی. صحافتی آداب کی دھجیاں  "تنقید" کے پردے میں کہاں کہاں اور کس کس طرح اڑایں گیئں یہ جانچنے کے لئے دیدہ ور کے لیے آپ کی تحریریں ہی کافی ہیں.

ایک ناقد اور صحافی ہونے کے ناتے یہ طے ہے کے جب بھی آپ اپنا نقطہ نذر دنیا کے سامنے پیش کرنگے آپ کو تعریف اور تنقید دونو برداشت کرنی پرینگی. جب دل کی بات لوگو کے نقطہ نذر پر اثر انداز ہونے کی غرض سے لکھی جائے گی تو یقینن اس کے حق میں اور خلاف بھی باتیں کہی جاینگی، اور بطور ناظر میرا پورا حق ہے کے آپ کی لکھی ہوئی بات سے اختلاف کر سکون. اب ہر کسی کا اختلاف کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے جو ظاہر ہے اس کی سوچ کا اور بیک گراونڈ کا عکس بھی پیش کرتا ہے. ایک سینئر صحافی کا ان چیزوں سے واسطہ روز ہی پڑتا ہے.

آج کل چند "مظلوم" لکھاری ایک عجیب و غریب قسم کی مہم مینجتے نذر آتے ہیں. یہ وہی لکھاری ہیں جو پچھلے کیی سالوں سے عمران خان کی کردار کشی سے لے کر بے مغز اور بے مقصد قسم کی تنقید میں دن رات ایک کئے ہوے تھے. ایسا تو ممکن نہیں کے بطور سیاست دان خان کا ہر قدم غلط ہو. مگر یہ کہنا مشق عادی تنقیدیے ہر موقے پر شہد میں کھٹاس ڈھونتے نذر آے. یہیں پر بس نہیں ، جس انداز میں عالم پناہ کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے وہ اکثر و بیشتر شرمندگی کی حد تک چاپلوسی اور دروغ گوئی کی مثال ہوتی ہے
.
عطا صاحب اپنے "محبوب" قاید سے محبّت کرنا کوئی جرم نہیں مگر اگر آپ یہ محبّت غیر جانبداری کے پردے میں چھپ کر کرنا چاہیںگے تو معاف کیجیح یہ اسسی یا نووے کی دہائی نہیں جہاں سرکاری میڈیا پر آپ اور آپ جسے کئی لوگو نی میاں صاحب کی درباری خدمت کے فرائض بخوبی انجام دے اور قوم کی آنکھ میں کامیابی سے دھول جھونکا. آج کا آزاد میڈیا سرکاری ٹی وی نہیں ہے جہاں آپ کی ہر غلط اور گمراہ کن بات کو صرف اس لیے خاموشی سے قبول کر لیا جائے کیوں کے وہ "آپ" کہ رہے ہیں.

یہ درست ہے کے کسی بھی لحاظ سے نازیبا الفاظ قابل قبول نہیں مگر میرا سوال یہ ہے کے کیا عطاالحق صاحب اور ان جیسے لوگ صحافتی دنیا میں اکیلے ہیں جن کو ان معاملات کا سامنا ہے؟ عطاالحق صاحب آپ اور آپ جیسے دوسرے عوام کی آنکھ میں دھول جھونکتے ہیں، کیوں کے آپ کی زبان پر تو غیر جانبداری کا چاپ ہوتا ہے ہے مگر آپ کی تحریریں چلّا چلّا کر آپ کی جانبداری کا ثبوت دیتی ہیں. اگر اپ علال اعلان یہ فرما دیں کے آپ میاں صاحب کے پرانے نمک خوار ہیں اور "ان کے آدمی" ہیں تو کوئی بھی آپ کی تحریروں پر ویسے تنقید نہیں کرے گا.ہارون الرشید  صاحب کی مثال سامنے ہے، وہ ببانگ دھل اس بات کا اقرار کرتے ہیں کے ان کی ہمدردیاں عمران خان کے ساتھ ہیں. لہٰذا ان کی تحریریں پڑھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کے وہ ایک ایسے شخص کی تحریر پڑھ رہا ہے جو عمران خان کا حامی ہے. آپ اور آپ جسے لوگ دھوکہ دیتے ہیں اور پردے میں رہ کر اپنے اجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں.

آپ نی جو "بچکانہ" تحریر مورخہ گیارہ اکتوبر کے جنگ میں لکھی ہے وہ آپ کی سطحی سوچ کی عکاس ہے. معاف کیجیح گا ایک جانبدار آدمی کے قلم سے لکھی ہوئی یہ تحریر کسی صورت بھی قابل ا اعتبار نہیں . اس کے علاوہ کیا آپ اور آپ کے ہمنوا اکیلے ہیں جن کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے؟ پوچیح ہارون الرشید سے، یا ارشاد عارف سے، ان کو کیا کیا سننے کو ملتا ہے، خطوط اور سوشل میڈیا دونو پر. مگر کبھی انہیں اس "نان اشو" پر صفحے کالے کرتے دیکھا؟ ہو سکتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کے عمران خان کے مخالفین کے پاس اب مزید کوئی بات نہیں بچی. آپ، آپ کے جیسوں، اور آپ کے آقا عالم پناہ پچھلے دس سالوں میں خان کی نجی زندگی سے لے کر سیاسی زندگی تک ، ہر جگہ کھود چکے اور الله کے کرم سے ہر جگہ آپ کو منہ کی کھانی پڑی، جلد یا بدیر. چاہے وہ عمران کی ازدواجی زندگی ہو یا شوکت خانم ہسپتال کو لے کر گھٹیا اور مکروہ کوشش، کوئی دروازہ آپ اور آپ جیسوں نی چھوڑا ہے؟ آج تک خان یا اس کے کسی مدح نے آپ اور آپ کے آقاؤں کی ذاتیات پر حملہ نہیں کیا. ورنہ میاں صاحبان کی شرعی اور غیر شرعی حرکات کی لسٹ کچھ کم نہ تھی. اگر تحریک انصاف کے جواں چاہتے تو کم بارکرکی کتاب کے چند اقتباسات ہی کافی تھے.

عطاالحق صاحب، آج کی اس مذموم صحافی گردی پراترنے  سے پہلے اپنے سینیر ہونے کا ہی خیال کر لیہ ہوتا. مگر یاد رکھیے کے آپ چاہے جتنا زور لگا لیں، دربار عالیہ کتنے ہی حربے استمال کر لے، آپ کی یہ "صحافی گردی" جسے عام الفاظ میں "زرد صحافت " کہا جاتا ہے اور نیی اصطلاح میں "درباری صحافت" کہا جاتا ہے، یہ ہتھکنڈے سواے آپ اور آپ کے مالکان کو اکسپوز کرنے کے کوئی فائدہ نہیں دینے والے. اگر آپ اتنے ہی پارسا اور صاف نیت ہیں تو ان جایز سوالوں کا جواب کیوں نہیں دیتے جو اب تقریبن پورا پاکستان آپ کی صحافت اور تحریروں پر اٹھا رہا ہے؟ آپ نی "با آسانی" ان چند خطوط اور سوشل میڈیا کے پیغامات کا انتخاب کر کر کے، جن کے سہی یا غلط ہونے کا اعتبار بھی نہیں، خود کو مظلوم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے. اور اس گھٹیا کوشش میں آرام سے دیکھا جا سکتا ہے کے کل تک جن لوگوں کو آپ قاتل اور دہشت گرد کہا کرتے تھے، ان کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے ان کی شرافت کے پل باندھ دیہ. مگر عطاالحق صاحب، وہ وقت بھول گئے جب صلاح الدین اور آپ دھمکیاں ملنے پر صفحے کے صفحے کالے کیا کرتے تھے؟ یا تو وہ جھوٹ تھا یا جو کچھ آپ نی آج لکھا وہ جھوٹ ہے.پیپلز پارٹی کے جیالے آپ کا کیا حشر کرتے تھے یا کرتے ہیں اس کی مثالیں ہمیں اچھے طرح یاد ہیں اور اکثر سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل جاتی ہیں.

ایک جماعت کے محظ پرستارو کی بات پر چراغ پا ہو گئے. یہاں تک کے ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے دوسری جماعتوں کا سہارا لیتے ہوے یہ بھول گئے کے ان جماعتوں کے "قائدین" نی لایو ٹی وی پر مشاہد اللہ ، چودھری نثار اور آپ کے زل الہی میاں برادران کے لیے کیا الفاظ استمال کیۓ تھے؟ گنجا اور "الو کا پٹھا" کے الفاظ کروڑوں عوام نی لایو سنے تھے جو اب بھی سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں. ذرا تحریک انصاف کے بخار اور عالم پناہ کی مدح سرآیی سے باہر نکل کے دوسری جماعتوں کے قائدین سے دو دو ہاتھ کر کے دیکھیے،  مفرور نہ ہونا پڑے تو کہیے گا.

 شیریں مزاری صاحبہ کے بارے میں لکھنے سے پہلے پوچھ تو لیہ ہوتا ان سے؟ شیریں سے اختلاف اپنی جگا مگر ان کی نیّت پر شک کرنے والا کم از کم تحریک انصاف میں کوئی نہیں ہے. باقی جن لگو کے نام آپنی لئے، ان کی اور آپ کی تحریروں میں کوئی فرق نہیں لہٰذا سلوک بھی کچھ ایک جیسا ہی ہے. ہر صورت میں آپ کی سچایی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے.

آج تک یہ شکایت سہی مانوں میں "نیوٹرل" صحافیوں کے منہ سے کیو نہیں سنی گی؟ ایک نامور صحافی نے تو حال ہی میں خان صاحب کا بڑا سخت انٹرویو لیا ہے، اور اس کے باوجود ان کو اس انٹرویو پر داد و تحسین ہی ملی ہے جب کے کڑی تنقید کی انہو نے.

جس طریقے سے آپ نی کچ عرصہ پہلے چند کالموں میں ناروے اور تھایلنڈ کی سفارت کاری کے معاملے کو بلا وجہ دھونے کی کوشش کی، اب تک سمجھ نہیںآتی  کے اس کی ضرورت آپ کو کیوں محسوس ہوئی تھی. کیا یہ حقیقت نہیں ہے کے میاں صاحب کے پہلے اور دوسرے دور میں آپ نے جم کے مزے لیے؟ آپ جتنی صفایاں پیش کر دیں، قوم کی یاد داشت اتنی بھی کمزور نہیں ہے. پلاٹ اور لفافے تو چلیۓ ثابت کرنے کی بات ہے لہٰذا اس بحس میں نہیں پڑینگے مگر جو کچھ سامنے کی بات تھی اس سے انکار کیسے کرنگے آپ؟ اس کے علاوہ میں دعویٰ کرتا ہوں کے پچھلے پانچ سالوں کی تحریروں میں ایک تحریر بھی آپ کی میاں صاحب پر "ٹھوس" تنقید پر مبنی نہیں. یہی نہیں  بلکے آپ کی ہر تحریر میں جس طرح مکّاری کے ساتھ میاں برادران کی امیج بلڈنگ کی ناکام کوشش ہوتی ہے وہ اندھا بھی دیکھ سکتا ہے.

عجیب ہی ماہرین دیکھے، جو ایک سیاسی پارٹی کو اس کے اجنڈے، پروگرام یا پچھلے رکورڈ کے بجاے، چند ایک بدتمیز سپورٹروں کی بنیاد پر جج کر رہے ہیں. ان میں کچھ واقعی حقیقی ہونگے اور ظاہر ہے الله سے ان کی ہدایت کی دعا ہی کی جا سکتی ہے مگر کون نہیں جانتا کے سوشل میڈیا پر نقلی آئ ڈی بنانا کون سا مشکل کام ہے؟ خطوط کس نی لکھے کہاں سے آے اس کے لیہ ایک جانبدار آدمی کی گواہی کیکتنی حیثیت ہے؟ ویسے بھی یہ شکایات عام آدمی کرتا ہوا اچھا لگتا ہے ، وہ لوگ نہیں جو خود کو سینئر "تجزیہ" نگار کہلوانے کے شوقین ہوتے ہیں.

عطا صاحب اس جماعت کے سوا کروڑ ممبر اور کروڑوں سپورٹر ہیں. ہر شخص اپنی ذہنی سطح کے مطابق آپ سے دو دو ہاتھ کرتا ہے. یقینن بدتمیزی انتہائی قبل مزممت ہے. سوشل میڈیا پر کوئی تنگ کرے تو اسے بلاک کر دیں، نہیں آتا تو تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم مدد کو حاضر ہے. خط ردی کی ٹوکری کی زینت بنایے، اور فون کال ٹریس کرنا کوئی مثلا نہیں ہے. براہ راست کوئی تنگ کرتا ہے تو تحریک انصاف کے یہی جوان آپ کی حمایت میں کیسے کھڑے ہونگے یہ آپ بھی دیکھیںگے. اگر کوئی تحریک انصاف کا آفس بیرر ہے تو شکایت رجسٹر کرایے اور اگر عام سپورٹر ہے تو خادم ا علا سے کہیہ کے تھانہ کا نظام ٹھیک کریں تاکے آپ جیسوں کی شکایات درج کی جا سکیں اور موسّر کارروایی ہو سکے یہ شور مچا کر آپ اب کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ 

بہرحال آپ کی آج کی تحریر نی کچھ ثابت کہ ہو یا نہیں، آج سے یہ ضرور پکّا کر دیا ہے کے جن کے دل میں پہلے رتی برابر بھی شک تھا اب وہ آپ کی تحریروں کو ایک جانبدار آدمی کی حیثیت سے ہی پڑھینگے اور نتیجتن آپ کی بلا وجہ کی سیاہ کو سفید کہنے کی ناکام کوشش کو اچھی طرح سمجھ پاینگے. عطاالحق صاحب افسوس کے ساتھ یاد دہانی کرانی پڑے گی کے عزت بنانے میں کیی سال لگتے ہیں ، مگر گرانے میں ایک لمحا کافی ہوتا ہے، آپ تو پھر خوشقسمت ہیں کے آپ کو ان گنت تحریریں اور کیی سال لگے.اگر واقعی آپ نےتحریک انصاف پر تنقید کرنی ہے تو کچھ ٹھوس لایں، ان اوچھے ہتھکنڈو کا بھی وہی حشر ہوگا جو عمران کی ازدواجی زندگی کی بربادی سے لے کر امن مارچ پر بے سرو پا تنقید کا ہوا ہے.  اس قوم نی کیی منجن خریدے ہیں ، اب کی بار دکان پر کوئی "سچا" مال بیچیں، یہ پی ٹی وی پر نلکوں اور سڑکوں کی افتتاحی تقریبوں، اور سیلاب زدگان کے ساتھ فوٹو سیشن کروا کر کھوٹے کو کھرا ثابت کرنے کا زمانہ نہیں ہے. یہاں بکتا تو سب ہے مگر یاد رکھیے دکھتا بھی سب ہے. یہ صحافی گردی یہاں نہیں چلے گی.

5 comments:

  1. Well written & factual analysis. Mubarakbad qabool karein. We would like to re-blog this on your blog (only if you permit). May we?

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thank you very much. Please do so, By All means, This is written to reach the masses and what ever channel we can use, we should do so...

      Delete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. nice one Taqweem bhae. I normally dont read articles but i think you are gonna make me read them on regular basis. Keep up the GOOD WORK.

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thanks kashif bhai... it all makes it worthwhile...

      Delete