Friday, 20 June 2014

Mian Gullu Shareef



میاں گلو شریف


تقویم احسن صدیقی


شیر درندہ ہی تو ہے. اور درندے سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ مگرٹھریئے ، درندہ بھی اس وقت تک درندگی پر نہیں آمادہ ہوتا جب تک اس کا پیٹ خالی نہ ہو. بھوکا شیر تو سنا ہے مگر پیٹ بھرا شیر شکار کرتے نہ سنا نہ دیکھا. تو یہ کون سے درندے ہیں کون سے جانور ہیں جن کے پیٹ حلق سے اوپر تک بھرے ہیں ، جن کی ہوس کی تسکین سے بھی کیی گنا زیادہ سامان ان کے پاؤں کی جوتی ہے مگر درندگی ہے کے بڑے سے بڑا خونخوار درندہ بھی ان کے آگے ہیچ. یہ پیٹ بھرے سفاک بے حس حکمران یہ شریف زادوں کے بھیس میں رذیل قاتل ظالم لوگ جن کے سینوں میں دل نہیں سیسہ دھڑکتا ہے، نہ جانے کچھ دھڑکتا بھی ہے یا نہیں کیونکے یا تو یہ جاندار نہیں یا بے حس مردے ہیں.

سنا ہے ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، جن ماؤں بہنوں بیٹیوں بزرگوں کی عزت، جان اور بزرگی کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کے سپرد ہے وہی ریاست خونخوار بھیڑیے کی طرح انہیں لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹتی رہی اور ان کے لہو سے اپنی وحشت کو جلا دیتی رہی.جی ہاں وہی پنجاب پولیس جو سری لنکن ٹیم پر حملے کے وقت درختوں اور دیواروں کی اوٹ میں گیدڑ بنی چھپی رہی. اس کشت و خون کی زمداری جن پر عائد ہوتی ہے انہو نی خود کو لا تعلق کر کے ہر چیز سے مبرّا کر لیا اور لگے کسی گللو کسی رانا  طارق یا اور کسی اپنے پالتو کارندے کی گردن ڈھونڈنے. اور وہ بھی اس لئے کہ سب کچھ لوگوں نی براہ راست اپنی آنکھوں سے دیکھا. بےشرمی کا یہ عالم ہے کے ان کے تمام گماشتے اور حمایتی پوری تندہی اور بےغیرتی سے اس معاملے کی صفائیاں پیش کرنے میں لگے ہیں. قادری صاحب سے میں ذاتی طور پر انتہایی اختلاف رکھتا ہوں، ان کے طرز سیاست سے بلکل غیر متفق ہوں، پچھلے سال کے ان کے دھرنے پر میری تحریر "ششماہی تماشے" اور گاہے بگاہے ان پر تنقید سے یہ اور بھی واضح ہو جاتا ہے. مگر میں اتنا بے حس نہیں نا ہی اتنا حوصلہ ہے مجھ میں کہ مظلوم کی آہ اور معصوم خون کو میں اپنی سیاسی، مذہبی اور ذاتی پسند نہ پسند کی کسوٹی پر پرکھوں. ماؤں بیٹیوں بہنوں بزرگوں اور اپنے ہی بھایوں کا خون بہتا دیکھوں اور صرف اس لئے خاموش رہوں کے ان کا تعلق شاید قادری صاحب سے ہو. اور جس دن ایسا کروں اس روز میرے ہونے پر حیف. آی
ۓ کیجیے ہمّت اور دے ڈالئے دلائل اس کھلے ظلم کے حق میں پر لب کشایی سے پہلے سوچنا ضرور کے ماڈل ٹاون کی سڑکوں پر گھسیٹی جانے والی ان ماؤں بہنوں جن کے آنچل جن کی ردا سفاک پنجاب پولیس کے ہاتھوں اپنی پامالی کا نوحہ پڑھتی تھیں، کی جگہ آپ کی مائیں بہنیں یا بزرگ ہوتے( اگر آپ ان کو اپنا نہیں سمجھتے تو) تو کیا تب بھی اس بد ترین درندگی کے حق میں کوئی عذر تلاش کرتے؟

بھوک سے جان دیں،افلاس سے مریں ، سیلاب میں ، زلزلے میں ، دہشت گردی میں یااپنے ہی نام نہاد خادموں کے غلاموں کی بندوقوں کا نشانہ بنیں ، ہم پاکستانی عوام ، اب خواص کے لیے محظ اعداد بن کے رہ گئے ہیں.  یا شاید اپنی یہ بے توقیری ہم نے خود کی ہے،  پچھلے کیی برسوں سے شاید اپنے انجام کو ہم خود تحریر کر رہےہیں. دم تحریر پنجاب کے شہباز کا دست راست "گلو بٹ" ذہنی کوفت اور اشتعال کی ماری عوام کے ہاتھوں ماڈل ٹاؤن کچہری میں اپنی درگت بنوا رہا تھا. میں نہیں جانتا یہ غصہ گلو پر تھا یا گلو اور اس جیسے سینکڑوں بدمعاشوں کے سرپرست اعلیٰ، شریف اور کشکول شکن خادموں پر تھا. مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کے خادموں اور شریفوں کا پچھلا ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ "اس" گلو کی کہانی ختم، اب نیا گلو تیار ہوگا. میرے لوگ بھی کیسے بد نصیب ہیں، ان ہی گلوں سے ڈرتے ہیں، انہی سے پٹتے ہیں اور انہی کے دھمکانے میں آ کر ان کے سرپرستوں اور اپنے قاتلوں لٹیروں کو اپنے سر پر بٹھاتے ہیں. گلو بٹ تو بس ایک پیادہ تھا، سوال یہ بنتا ہے کے جب یہ گلو بٹ اپنے آقاؤں کے اشارے پر وہ کر رہا تھا جو سب نےدیکھا تب اسی سے دو فٹ دور سینکڑوں پنجاب پولیس کے اہلکار کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے یا نہتے اور کمزوروں پر اپنی طاقت آزما رہے تھے ان پولیس اہلکاروں کا کیا؟ ان پولیس افسروں کا کیا جو اس گلو کو تھپکیاں دے رہے تھے؟ ان نام نہاد خادموں کا کیا جن کی ناک کے نیچے آٹھ گھنٹے تک لاہور میں ہونے  والا کشت و خون کا وحشت ناک کھیل جاری رہا؟ کہتے ہیں ہمیں خبر ہی نہ ہوئی. بےشرمی اور ڈھٹائی کی کوئی حد ہے؟ ارباب اختیار کا اس آگ و خون کی ہولی پر چپ سادھ لینا صرف دو ہی صورتوں میں ممکن ہے ، پہلی یہ کے واقعی یہ بےخبر رہے یا یہ کے یہ سب ان کے اشارے پر ہوا. دونو صورتوں میں ان نام نہاد خادموں کی ذمہ داری بنتی ہے اور گر تھوڑی سی بھی غیرت نام کی چیز باقی ہو تو کم از کم استعفی بنتا ہے. مگر کیوں دیں استعفی؟ میں نےسنا کوئی صاحب کل ٹی وی پر فرما رہے تھے کے بنو جیل ٹوٹنے پر خٹک صاحب نے تو استعفی نہیں دیا، تو شہباز کیوں اپنے ہی پر کاٹ لے؟ بنو جیل کے ٹوٹنے اور ریاست کی طرف سے کی جانے والی کھلی دہشت گردی میں کیا فرق ہے اسے قارئین پر چھوڑے دیتے ہیں.

میرے لوگوں کبھی سوچا ہے کہ ہم پر روز ظلم ہوتا ہے اور ہر آنے والا دن پچھلے سے سخت اور ہونے والا واقعہ پچھلے سے زیادہ شرمناک اور وحشت ناک ہوتا ہے پر نہ زمین ہلتی ہے نہ آسمان ٹوٹتا ہے؟   جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ تم ہی ان اوسط سے بھی نیچے لوگوں کو سر پر بیٹھا کر فرعون بناتے ہو، تم ہی ان کے جرم پر صرف اس لئے پردہ ڈالتے ہو کے یہ تمھارے آقا اور تم ان کے غلام، ہاں یہ ہم ہی ہیں جن کے سروں کو کچل کر جن کے خون میں نہا کر یہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں، ہاں یہ ہم ہی ہیں جن کو اپنے ہی ہم وطنوں کا بہتا خون صرف خون نہیں بلکہ مولوی خون، لبرل خون، علاقائی خون، شیعہ سنی بریلوی دیوبندی خون دکھتا ہے. غضب خدا کا آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جنھیں اپنے ہی لوگوں کا بہتا ہوا یہ اپنا نہیں بلکہ قادری صاحب کے لوگوں کا لگ رہا ہے. جس وحشیانہ انداز میں لوگوں پر ظلم ہوا وہ سب نے دیکھا، آخری خبریں انے تک بارہ لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اسسی سے زاید شدید زخمی ہیں. کہ دو یہ بھی بیرونی سازش ہے. جو آنکھ اس ظلم کو دیکھ کر اشکبار نہ ہو، جو دل اس وحشت پر تار تار نہ ہو جس جگر میں اس سفّاکی کے حق میں دلائل دینے کی ہمّت ہو اس کا زندہ ہونا نہ ہونا برابر، اس کی دعا بد دعا بے اثر ، اس کی کوشش اور خواہش بے ثمر اور اس کی پکار بے ضرر. یاد رکھیں یہ سب کچھ اس وقت تک نہیں بدل سکتا جب تک ایک انسانی جان کی اہمیت ہمارے نزدیک ہر قسم کی سیاسی، مذہبی، اخلاقی ، اور اس جیسی کیی لغو وابستگیوں سے بالا تر نہ ہو جائے. کیا تم نے نہیں دیکھا کے کیسے ادھ مرے گولی کھاے لوگوں کو بھی ان لوگوں نے لاٹھیوں سے دھنکا، تمہیں نظر نا آئین  وہ مائیں بہنیں جن کی ردا کو ان ظالموں نے بوٹوں کی نوک پے رکھا جو ان بھیڑیوں سے جان کی امان مانگتی بے امان کبھی ادھر کو بھاگیں کبھی ادھر پناہ لی مگر ان ظالموں نے گولیوں اور لاٹھیوں سے ان کے سر پھاڑ ڈالے؟ تم نے کیا کیا نہ دیکھا، مگر تم نے منہ کھولنے کی ہمّت بھی نہ کی. منہ کھولا تو اپنے آقاؤں کے ظلم و جبر کی صفایاں دینے کے لئے. ہم کیسے توقع کرتے ہیں کے ہم انسانیت کی تذلیل ہوتے دیکھتے رہینگے اور ہمارا رب ہمیں ان ظالموں اور قاتلوں سے بچا لے گا؟

میں ان بے قصوروں کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کروں؟ متعلقہ اداروں کے بے حس ذمہ داران، ڈھیٹ، ظالم اور بے غیرت سیاست دان جن کے نزدیک ہماری جان کی قیمت چند لاکھ اور دو بیانات سے زیادہ نہیں یا اپنی قوم کے اس طبقے کے ہاتھ پر جو ذلت پر ذلت اٹھا رہے ہیں مگر غلامی چھوڑنے کو تیار نہیں. بات جو بھی ہو، ہم خود اپنے مجرم ہیں. لوگوں جان لو کے ان سانپوں کو دودھ ہم نے ہی پلایا ہے، ہمارے ہی پیسوں پے پل کے آج یہ اژدہے بنے ہمیں ہی کاٹ مار رہے ہیں. اور جتنی جلدی یہ قوم پوری یکسوئی کے ساتھ اس بات کو سمجھ لے اتنا بہتر ورنہ ہم جسے بیوقوف تو یہ جانتے ہیں کے یہ سب باطل ہے اور قران کہتا ہے کہ باطل تو ہے ہی مٹ جانے کے لئے. ظلم کا مٹ جانا تو لکھ گیا ہے اب یہ ہم پر منحصر ہے کے ہم کتنی جلدی اس بات کو سمجھتے ہیں اور اپنا نام تاریخ کے پنوں پر کہاں لکھواتے ہیں. کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم جو آواز اٹھے اس میں اپنی آواز ہی شامل کر لو، یہ بھی نہ کر سکو تو کم از کم دل میں ظلم کو ظلم تو مانو، اور اگر دل سے ظلم کو ظلم ماں لو تو یہ ممکن ہی نہیں کے باطل کے حق میں تاویل کا ایک لفظ بھی کسی بھی مصلحت کا لبادہ اوڑھے زبان سے پھسل جائے. یہی فطرت ہے ، یہی انسانیت اور یہی دین، باقی سب منافقت.