Sunday, 17 November 2013

Soorat Gar e Taqdeer e Millat


صورت گر تقدیر ملّت

تقویم احسن صدیقی



دہایاں بیت گیئں وطن عزیز کو نازک موڑسے گزرتے. ایسا نازک موڑ جو لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر آج تک کٹ ہی نہیں رہا. ذمہ دار کون؟ سیاست دان؟ افواج یا عوام؟ ہر شخص کا مجرم الگ مگر دیکھا جائے تو شاید دامے درمے سخنے اس کار خیر میں سب نے اپنا حصّہ ڈالا. اور ظلم سہ کر لوگوں نے ان گیدڑوں کو شیر بنا ڈالا.
پچھلے پچیس تیس سال وطن عزیز کے کٹھن ترین ماہ و سال رہے. ہر زاویے سے مادر وطن کا استحصال کیا گیا. سوشلزم ، مذہب، روشن خیالی اور ان نعروں کے بیچ آتی جاتی جمہوریتیں اور ڈکٹیٹر. جو آیا قوم کو نیا سبق پڑھاتا رہا اور یہ بدنصیب پڑھتے رہے. میری نسل ضیاء کے ڈھلتے سورج یا اس کے کچھ بعد سے لے کر زرداری تک ان بدلتے رنگوں اور اس بیچ ہوتے تماشے کو دیکھتی رہی. بینظیر مرحومہ ہوں، نواز شریف یا مشرّف ہم نے سب کو پورا پورا موقع دیا اور پھر وہ وقت آیا کے ہم ناراض ہو گئے. ان سب سے لا تعلق ہو گئے اور حالات سے ایک طرح کا خاموش سمجھوتہ کر بیٹھے. کوئی اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھا اس نظام اور اس کے نمائندوں پر تبرا بھیج کر مطمعین رہا تو کوئی جلتا کڑھتا خاموش رہ کر اس نظام کا حصّہ بنا. قائد اعظم کا پاکستان کہیں کتابوں میں دھندلا گیا اور سیاست کوڑے دان سے زیادہ کچھ نہ رہی.
یہی وہ حالات تھے جس میں حقیقت کے نام پر مایوسی بیچتے اور اس مایوسی سے فائدہ اٹھاتے سیاست دانوں اور ان کی سیاسی جماعتوں کے بیچ کپتان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی. اس جماعت کا سفر بھی خاصہ دلچسپ رہا. خان کے مداحوں کو اس کا کارکن بننے میں کوئی پندرہ سولہ سال کا عرصہ لگا. ابتدایی شکست کے بعد جب کپتان سے اس کے مستقبل کے بارے پوچھ گیا تو وہ مسکرا دیا، کہا میرا ووٹر ابھی ووٹ ڈالنے کی عمر کو نہیں پہنچا، اسے بڑا ہو لینے دو پھر دیکھنا یہاں تماشا کیا لگتا ہے. اور پھر میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر، لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا کے مصداق ، تحریک انصاف آگے بڑھدتی گی اور قوّت پکڑتی گی. ایک وہ وقت تھا جب کپتان کا مزاق اڑاتے لوگ اسے نیے زمانے کا اصغر خان ثابت کرنے میں لگے رہتے تھے. دو ہزار آٹھ کے انتخابات کا بائیکات تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کے نزدیک اس کی سیاسی خودکشی تھی. مگر حقیقت یہی ہے کے جو کچھ خان دیکھ رہا تھا وہی اگر یہ تجزیہ نگار دیکھ رہے ہوتے تو آج خان کی جگہ یہ لیڈر نہ ہوتے؟ وقت نے ثابت کیا کے خان کی سیاسی زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں حصّہ نہ لینا تھا.
آج تحریک انصاف بلا شبہ بغیر کسی عصبی، لسانی، مذہبی یا صوبائی لیبل کے بلا شرکت غیرے کراچی سے خیبر تک پاکستانیوں کی واحد جماعت ہے جو وفاق کی علامت ہے. پچھلے الیکشن کی تین بڑی جماعتیں، پہلے ہی صوبوں اور اپنے اپنے شہروں تک محدود تھیں،حالیہ الکشن نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی. انتہائی متنازع انتخابات کے باوجود تحریک انصاف ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کے ابھری، اور ملک کے کونے کونے سے ووٹ حاصل کیا. وہ جماعت جسے کوئی ایک سیٹ کی پارٹی، کوئی ممی ڈیڈی پارٹی تو کوئی چند ہزار ووٹ کی پارٹی کہ کر خود کو دھوکہ دیا کرتا تھا ، آج چھیاسی لاکھ سے زاید ووٹ لے کر سٹیٹس کو کی نمائندہ تمام جماعتوں کو للکار رہی ہے.
تحریک انصاف نسبتاً ایک نیی جماعت ہے، گو سترہ سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا مگر اگر اسے اپنے مد مقابل سٹیٹس کو کی نمائندہ تیس چالیس سال پرانی "گھاگ" جماعتوں کے تناظر میں دیکھیں تو یہ ایک نیی جماعت ہے. پھر اس کے کارکنان اور سپورٹر زیادہ تر معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے لئے تو سیاست ہی نیی چیز ہے. اس لحاظ سے مسائل بھی ہیں جو وقتن فوقتن سامنے آتے رہتے ہیں جن سے بہتر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے. یہ یاد رکھیے کے مفاد پرست ہر جگہ موجود ہوتے ہیں. ہماری صفوں میں بھی ہیں،  پیشہ ور سیاستداں بھی ہیں اور موقعہ پرست بھی. ممکن ہے ایسے لوگوں کا شخصی ایجنڈا کہیں کہیں کامیاب بھی ہو جائے مگر باحیثیت مجموعی یہ جماعت پر اس وقت تک قابض نہیں ہو سکتے(چاہے کسی عہدے پر بھی پہنچ جائیں) جب تک نظریاتی اور مخلص کارکن اور ہمدرد ہار نہیں ماں لیتا. اور ہار ماننا تحریک انصاف کے سچے کارکن نے سیکھا ہی نہیں. ایک اور اچھی بات کے شاید تحریک انصاف وہ واحد جماعت ہے جہاں شخصی اظہار خیال کی مکمل آزادی ہے اور اس کے کارکنان چیئرمین سے لے کر آخر تک سوال کرنا اور سوال اٹھانا جانتے ہیں اور انھیں اس کی آزادی بھی ہے.
 گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف مرکز میں حکومت نہ بنا سکی، اس کی تاریخی دھاندھلی سے لے کر اپنی کوتاہیوں تک کیی وجوہات ہیں جن میں ٹکٹ ایلوکشن اور تنظیمی معاملات شامل ہیں.اس پر سیر حاصل تبصرے بھی ہو چکے، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہینگےاور یقیناً ہمارے لئے ان میں غلطیوں سے سیکھنے کے مواقع موجود ہیں. اس کے علاوہ اس الکشن میں جس طرح قوم کا منڈیٹ لوٹا گیا وہ بھی ہمارے سامنے ہے اور آ رہا ہے.  مگر آج ہمارا موضوع یہ نہیں.
پاکستان اور پاکستان سے باہر پوری دنیا میں تحریک انصاف کے کارکنان اور ہمدرد ایک بات یاد رکھیں کے آپ کا مقابلہ پینسٹھ سال سے اس ملک کی جڑوں میں بیٹھے سٹیٹس کو سے ہے جو آج اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے. ناکامی کا آپشن ہمارے پاس ہے ہی نہیں. آپ ملک اور اس کا نظام بدلنے کا نعرہ لے کر نکلے ہیں، نیے پاکستان کا نعرہ، آپ کو کیا لگتا ہے کے یہ سب اتنا آسان ہے؟ ابھی تو ہم نے اس نظام کے مزے لوٹتے ڈکیتوں کی کمین گاہ میں پہلی ضرب لگایی ہے. اور وہ بھی ایسی کاری کے پاکستان کے طول و عرض میں جتنی روایتی سیاسی جماعتیں اور گروہ ہیں وہ آج ہمارے خلاف کھڑے ہیں. یہی ہماری صحیح سمت کی طرف اشارہ ہے. کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ کے پی کے میں دہایوں سے جاری مذہبی بہروپیوں اور قومیت کے سوداگروں میں جاری اقتدار کی بندر بانٹ ختم ہو گی؟ کس نی سوچا تھا کے تخت لاہور کو ان کے گھر میں للکارنے والی آواز اتنی طاقتور ہو جاےگی کے شریف برادران اور ان کے حواریوں کے حواسوں پر سوار ہو جاےگی؟ کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کے کراچی میں خوف کی زنجیر توڑ کے ایک عام آدمی تیس سال میں پہلی بار لسانیت اور تشدد کے شیطانی چکّر سے آزاد ہو کر ظالم کے سامنے کھڑا ہوگا؟ بلوچستان کے پہاڑوں میں تبدیلی کا نعرہ گونجے گا؟ یہ تو شروعات ہیں دوستوں، تم نے اپنی آمد کا اعلان کر دیا ہے اور دیکھو کیا خوب کیا ہے کے ظالموں کے دل دہلتے ہیں اور ظلم کے در و دیوار ہلتے ہیں.
شریفوں، زرداریوں اور ان کے تمام حواریوں کو پیغام موصول ہو کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا. یہ جوش، یہ جنون ایک رات میں نہیں پایا. پینسٹھ برس گزارے ہیں ظلم اور استحصال کی چکّی میں پس کر، برس ہا برس سے پامال ہوتی عزت نفس نے دوام بخشا ہے اسے، اپنے پیاروں کا لہو بے توقیر ہوتے دیکھا ہے، قائد کے پاکستان کو بے سہارا لٹتے اور کھوکھلا ہوتے دیکھا ہے. کبھی جمہوریت، کبھی لسان، کبھی مذھب، کبھی روشن خیالی تو کبھی مفاہمت کے نام پر دھوکہ کھایا ہے. نتائج اور مد مقابل سٹیٹس کو کی بے انتہا طاقت سے بے نیاز ان جوانو کا عزم  مضبوط اور یقین غیر متزلزل ہے. یہ اپنے خوف کو شکست دے بیٹھے ہیں. ان کے جوش اور جنون کا اندازہ لگانا سٹیٹس کو کی نمائندہ جماعتوں اور ان کے حواریوں کے لئے شاید ممکن نہیں . کوئی ہتھکنڈا یا چال اب ان کے راستے کی دیوار بنے، یہ ممکن نہیں. یہ جیت ہار سے بے نیاز بس تبدیلی کی دھن ان پر سوار.
 انہیں جتنی بار دبانے کی کوشش کی جاےگی، یہ اتنی بار مزید قوّت سے پلٹینگے ، جتنی بار ان کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کرو گے ان کے دلوں میں خود کو منوانے کا جذبہ اتنا ہی شدید ہوتا جائے گا. اور اس جذبے کی طاقت تو یقین کامل والے ہی جانیں جن پر اپنے سے کیی گنا بڑے اور طاقتور حریف کو شکست فاش دینے کی دھن سوار ہے.  راستہ بہت کٹھن مگر منزل قریب، بس ثابت قدمی اور یقین کامل شرط.

No comments:

Post a Comment