Tuesday, 30 October 2018

The declining News and Current Affairs Industry in Pakistan

پاکستان میں نیوز اور کرنٹ افئیرز چینلز کے عروج و زوال کا مختصر احوال

تقویم احسن صدیقی

نۓ نۓ چینل شروع ہوے ، حکومتی بھونپو بنا ہوا قومی نشریاتی ادارہ لوگوں کو متنفر کر چکا تھا .. نجی چینلوں پر شروع شروع تین چار لوگ بٹھا کر انھیں آپس میں لڑوانا ، لوگوں میں بکنے لگا .. سطحی قسم کا ذہن رکھنے والے عقل کل بن کے روز چھترول کرتے خود کو قوم کا نجات دھندہ بنا کر پیش کرنے میں کامیاب ہو گیے .. پچاس پچاس لاکھ تنخواہیں ہو گئیں ..  لوگوں نے بھی امید باندھ لی کے ملک کے حالات اور معاشرتی برائیوں میں بہتری آئیگی .. وقت گزرا لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ روز شام چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک لگنے والی دکان بس منجن ہی ہے ..

خود کو فیئر رکھنے کے بجاے "نیوٹرل" ثابت کرنے کے چکر میں اینکروں نے "بیلنسنگ" شروع کی .. کچھ دن یہ بھی چل گیا .. پھر لوگ اکتانے لگے سمجھ گۓ کہ یہ صرف بیلنسنگ کے چکر میں پارٹی بدل بدل کے چھترول کے سوا کچھ نہیں ..بریکنگ نیوز کی شاؤں شاؤں، اپنا اثر کھونے لگی .. رپوٹنگ غیر معیاری ، تبصرے سطحی ، پروگرام معلومات سے عاری، سب سے پہلے سب سے تیز کی دوڑ میں معیار ختم، غیر مصدقہ خبروں پر دو دو دن ایئر ٹائم ضائع..لوگ اکتا گۓ.

 اس کا حل چینل مالکان نے یہ نکالا کے بجاے پروگرامز اور رپورٹنگ بہتر کرنے کے ، انہوں نے حکومتوں سے پیسے پکڑنا شروع کر دیے .. کام بہت آسان تھا .. کوئی آپکا پروگرام آپ کا چینل دیکھے یا نہ دیکھے ، کیا فرق پڑنا تھا؟ مایا برس رہی تھی اور چینل کھیل رہے تھے .. اربوں روپے کا ہن برسنے لگا .. جتنے بڑے مسلے کو دبانے کے لئے جتنا بڑا جھوٹ بولنا پڑتا ، قیمت اتنی ہی زیادہ .. پھر اس میں ایک اور جدت آی ، جھوٹے اور لفافہ تبصروں سے ایک قدم اور آگے بڑھے ، باقاعدہ جھوٹی خبریں اور بوگس رپورٹنگ شروع ہو گئی .. لوگوں کی آنکھیں تب کھلنا شروع هوں جب یکے بعد دیگرے خبریں جھوٹی ثابت ہونا شروع ہو گئیں اور مکمل زوال اس وقت آیا جب چند چینلز کی خبروں اور تبصروں کے بالکل بر عکس حقائق پانامہ کیس میں کورٹ روم سے آنے لگے .. جسیے جیسے اسٹیکس بڑھتے گۓ حکومت کی طرف سے رشوت بھی بڑھتی گئی .. ٨٠ ارب کے قریب حکومت نے ان پانچ سالوں میں عوام کا پیسہ ان چینلوں میں جھونک دیا..

یہ چینل جانتے تھے کے اگر پی پی یا ن لیگ کی حکومت نہ رہی تو ان کی دکانیں بند ہو جائینگی اس لئے الیکشن کے آخری دن تک ایڑی چوٹی کا زور لگا گۓ لوگوں کو کنفیوز کرنے کے لئے .. خیر، یہ ناکام رہے ... توقع کے عین مطابق ، عمران خان نے فضول کے سرکاری اشتہارات اور خفیہ فنڈ سے جاری کی جانے والی رقم بند کر دی .. جس کا حل چینل مالکان نے یہ نکالا کے دو مہینے حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیۓ خوب جھوٹ چلایا ، پروپیگنڈا کیا گیا .. حکومت دباؤ میں نہیں آئ .. پھر کھل کے شکوہ کرنے لگے جس پر وزیر اعظم نے سیدہ سا جواب دے دیا کے انھیں اپنا "تھوبڑا" لگوانے کا شوق نہیں ہے اور نا پیسے دے کر تعریفیں کروانے کا، آپ لوگ اپنے کانٹینٹ پر توجہ دیں اور جدت لائیں کاروباری معاملات ٹھیک کریں حالات ٹھیک ہو جاینگے ..

اب حالت یہ ہے کے عیاشیاں ختم ہیں .. چینل بند ہو رہے ہیں ، کہیں اینکروں کی تنخواہیں کم کی جا رہی ہیں (ظاہر ہے، اپنی جیب سے تو دیتے نہیں تھے پہلے ، اس لیۓ عیاشی لگی ہوئی تھی ).. اس صورت حال سے نکلنے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقه ہے، چینل مالکان اپنی رپورٹنگ کا معیار بہتر کریں ، صحافت کو صحافت کی طرح کریں ، بازار میں ٹکے سیر بکنے والے منجن کی طرح اب دکان لگانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکے خریدار نہیں ہیں .. معلومات عامہ کی پروگرامز، ڈاکومینٹریز ، نۓ آئیڈیاز ، ایسے پروگرامز جن کا کوئی فائدہ بھی ہو ، پھکڑ پن اور چھچھور پن والے پروگرام ختم کر کے ڈھنگ کے پروگرام شروع کریں . معلوماتی گیم شوز، تاریخ ، حالت حاضرہ ، نیچر ، جانور ، سمندری حیات ، پرندے ، ٹریول وغیرہ سے متعلق پروگرامز اور شوز کریں ... آن لائیں کنٹینٹ اور ٹی وی آن ڈیمانڈ پر کام کریں..  یہ ایک بہت بڑی اور نفع بخش انڈسٹری ہے بشرطیکہ اس کو پیشورانہ مہارت اور دیانتداری سے چلایا جاۓ .. اور ہاں یہ جو آخری پیرا گراف ہے، وہ بس ایک جھلک ہے کروڑوں اربوں کے مشورے کی .. "مفت" میں  

No comments:

Post a Comment