Thursday 25 October 2012

Tera Kakh Na Rahay


Thursday 11 October 2012

Ghunda gardi Aur Sahafat


By: Taqveem Ahsan Siddiqui

غنڈہ گردی اور صحافت

تقویم احسن صدیقی
 

چلیۓ صاب آج محترم جناب عطاالحق قاسمی صاحب نی اعتراف جرم کر ہی لیا. اپنی طرف سے جس "راز" کا انکشاف انہو نے آج اپنی تحریر میں کیا، وہ تو قوم پر کیی سالوں سے منکشف تھا. اور وہ تھا محترم کی تحریک انصاف سے بے پناہ نفرت، جو کے پچھلے کیی سالوں سے ان کی تمام تحریروں میں صاف عیاں تھی. صحافتی آداب کی دھجیاں  "تنقید" کے پردے میں کہاں کہاں اور کس کس طرح اڑایں گیئں یہ جانچنے کے لئے دیدہ ور کے لیے آپ کی تحریریں ہی کافی ہیں.

ایک ناقد اور صحافی ہونے کے ناتے یہ طے ہے کے جب بھی آپ اپنا نقطہ نذر دنیا کے سامنے پیش کرنگے آپ کو تعریف اور تنقید دونو برداشت کرنی پرینگی. جب دل کی بات لوگو کے نقطہ نذر پر اثر انداز ہونے کی غرض سے لکھی جائے گی تو یقینن اس کے حق میں اور خلاف بھی باتیں کہی جاینگی، اور بطور ناظر میرا پورا حق ہے کے آپ کی لکھی ہوئی بات سے اختلاف کر سکون. اب ہر کسی کا اختلاف کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے جو ظاہر ہے اس کی سوچ کا اور بیک گراونڈ کا عکس بھی پیش کرتا ہے. ایک سینئر صحافی کا ان چیزوں سے واسطہ روز ہی پڑتا ہے.

آج کل چند "مظلوم" لکھاری ایک عجیب و غریب قسم کی مہم مینجتے نذر آتے ہیں. یہ وہی لکھاری ہیں جو پچھلے کیی سالوں سے عمران خان کی کردار کشی سے لے کر بے مغز اور بے مقصد قسم کی تنقید میں دن رات ایک کئے ہوے تھے. ایسا تو ممکن نہیں کے بطور سیاست دان خان کا ہر قدم غلط ہو. مگر یہ کہنا مشق عادی تنقیدیے ہر موقے پر شہد میں کھٹاس ڈھونتے نذر آے. یہیں پر بس نہیں ، جس انداز میں عالم پناہ کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے وہ اکثر و بیشتر شرمندگی کی حد تک چاپلوسی اور دروغ گوئی کی مثال ہوتی ہے
.
عطا صاحب اپنے "محبوب" قاید سے محبّت کرنا کوئی جرم نہیں مگر اگر آپ یہ محبّت غیر جانبداری کے پردے میں چھپ کر کرنا چاہیںگے تو معاف کیجیح یہ اسسی یا نووے کی دہائی نہیں جہاں سرکاری میڈیا پر آپ اور آپ جسے کئی لوگو نی میاں صاحب کی درباری خدمت کے فرائض بخوبی انجام دے اور قوم کی آنکھ میں کامیابی سے دھول جھونکا. آج کا آزاد میڈیا سرکاری ٹی وی نہیں ہے جہاں آپ کی ہر غلط اور گمراہ کن بات کو صرف اس لیے خاموشی سے قبول کر لیا جائے کیوں کے وہ "آپ" کہ رہے ہیں.

یہ درست ہے کے کسی بھی لحاظ سے نازیبا الفاظ قابل قبول نہیں مگر میرا سوال یہ ہے کے کیا عطاالحق صاحب اور ان جیسے لوگ صحافتی دنیا میں اکیلے ہیں جن کو ان معاملات کا سامنا ہے؟ عطاالحق صاحب آپ اور آپ جیسے دوسرے عوام کی آنکھ میں دھول جھونکتے ہیں، کیوں کے آپ کی زبان پر تو غیر جانبداری کا چاپ ہوتا ہے ہے مگر آپ کی تحریریں چلّا چلّا کر آپ کی جانبداری کا ثبوت دیتی ہیں. اگر اپ علال اعلان یہ فرما دیں کے آپ میاں صاحب کے پرانے نمک خوار ہیں اور "ان کے آدمی" ہیں تو کوئی بھی آپ کی تحریروں پر ویسے تنقید نہیں کرے گا.ہارون الرشید  صاحب کی مثال سامنے ہے، وہ ببانگ دھل اس بات کا اقرار کرتے ہیں کے ان کی ہمدردیاں عمران خان کے ساتھ ہیں. لہٰذا ان کی تحریریں پڑھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کے وہ ایک ایسے شخص کی تحریر پڑھ رہا ہے جو عمران خان کا حامی ہے. آپ اور آپ جسے لوگ دھوکہ دیتے ہیں اور پردے میں رہ کر اپنے اجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں.

آپ نی جو "بچکانہ" تحریر مورخہ گیارہ اکتوبر کے جنگ میں لکھی ہے وہ آپ کی سطحی سوچ کی عکاس ہے. معاف کیجیح گا ایک جانبدار آدمی کے قلم سے لکھی ہوئی یہ تحریر کسی صورت بھی قابل ا اعتبار نہیں . اس کے علاوہ کیا آپ اور آپ کے ہمنوا اکیلے ہیں جن کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے؟ پوچیح ہارون الرشید سے، یا ارشاد عارف سے، ان کو کیا کیا سننے کو ملتا ہے، خطوط اور سوشل میڈیا دونو پر. مگر کبھی انہیں اس "نان اشو" پر صفحے کالے کرتے دیکھا؟ ہو سکتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کے عمران خان کے مخالفین کے پاس اب مزید کوئی بات نہیں بچی. آپ، آپ کے جیسوں، اور آپ کے آقا عالم پناہ پچھلے دس سالوں میں خان کی نجی زندگی سے لے کر سیاسی زندگی تک ، ہر جگہ کھود چکے اور الله کے کرم سے ہر جگہ آپ کو منہ کی کھانی پڑی، جلد یا بدیر. چاہے وہ عمران کی ازدواجی زندگی ہو یا شوکت خانم ہسپتال کو لے کر گھٹیا اور مکروہ کوشش، کوئی دروازہ آپ اور آپ جیسوں نی چھوڑا ہے؟ آج تک خان یا اس کے کسی مدح نے آپ اور آپ کے آقاؤں کی ذاتیات پر حملہ نہیں کیا. ورنہ میاں صاحبان کی شرعی اور غیر شرعی حرکات کی لسٹ کچھ کم نہ تھی. اگر تحریک انصاف کے جواں چاہتے تو کم بارکرکی کتاب کے چند اقتباسات ہی کافی تھے.

عطاالحق صاحب، آج کی اس مذموم صحافی گردی پراترنے  سے پہلے اپنے سینیر ہونے کا ہی خیال کر لیہ ہوتا. مگر یاد رکھیے کے آپ چاہے جتنا زور لگا لیں، دربار عالیہ کتنے ہی حربے استمال کر لے، آپ کی یہ "صحافی گردی" جسے عام الفاظ میں "زرد صحافت " کہا جاتا ہے اور نیی اصطلاح میں "درباری صحافت" کہا جاتا ہے، یہ ہتھکنڈے سواے آپ اور آپ کے مالکان کو اکسپوز کرنے کے کوئی فائدہ نہیں دینے والے. اگر آپ اتنے ہی پارسا اور صاف نیت ہیں تو ان جایز سوالوں کا جواب کیوں نہیں دیتے جو اب تقریبن پورا پاکستان آپ کی صحافت اور تحریروں پر اٹھا رہا ہے؟ آپ نی "با آسانی" ان چند خطوط اور سوشل میڈیا کے پیغامات کا انتخاب کر کر کے، جن کے سہی یا غلط ہونے کا اعتبار بھی نہیں، خود کو مظلوم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے. اور اس گھٹیا کوشش میں آرام سے دیکھا جا سکتا ہے کے کل تک جن لوگوں کو آپ قاتل اور دہشت گرد کہا کرتے تھے، ان کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے ان کی شرافت کے پل باندھ دیہ. مگر عطاالحق صاحب، وہ وقت بھول گئے جب صلاح الدین اور آپ دھمکیاں ملنے پر صفحے کے صفحے کالے کیا کرتے تھے؟ یا تو وہ جھوٹ تھا یا جو کچھ آپ نی آج لکھا وہ جھوٹ ہے.پیپلز پارٹی کے جیالے آپ کا کیا حشر کرتے تھے یا کرتے ہیں اس کی مثالیں ہمیں اچھے طرح یاد ہیں اور اکثر سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل جاتی ہیں.

ایک جماعت کے محظ پرستارو کی بات پر چراغ پا ہو گئے. یہاں تک کے ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے دوسری جماعتوں کا سہارا لیتے ہوے یہ بھول گئے کے ان جماعتوں کے "قائدین" نی لایو ٹی وی پر مشاہد اللہ ، چودھری نثار اور آپ کے زل الہی میاں برادران کے لیے کیا الفاظ استمال کیۓ تھے؟ گنجا اور "الو کا پٹھا" کے الفاظ کروڑوں عوام نی لایو سنے تھے جو اب بھی سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں. ذرا تحریک انصاف کے بخار اور عالم پناہ کی مدح سرآیی سے باہر نکل کے دوسری جماعتوں کے قائدین سے دو دو ہاتھ کر کے دیکھیے،  مفرور نہ ہونا پڑے تو کہیے گا.

 شیریں مزاری صاحبہ کے بارے میں لکھنے سے پہلے پوچھ تو لیہ ہوتا ان سے؟ شیریں سے اختلاف اپنی جگا مگر ان کی نیّت پر شک کرنے والا کم از کم تحریک انصاف میں کوئی نہیں ہے. باقی جن لگو کے نام آپنی لئے، ان کی اور آپ کی تحریروں میں کوئی فرق نہیں لہٰذا سلوک بھی کچھ ایک جیسا ہی ہے. ہر صورت میں آپ کی سچایی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے.

آج تک یہ شکایت سہی مانوں میں "نیوٹرل" صحافیوں کے منہ سے کیو نہیں سنی گی؟ ایک نامور صحافی نے تو حال ہی میں خان صاحب کا بڑا سخت انٹرویو لیا ہے، اور اس کے باوجود ان کو اس انٹرویو پر داد و تحسین ہی ملی ہے جب کے کڑی تنقید کی انہو نے.

جس طریقے سے آپ نی کچ عرصہ پہلے چند کالموں میں ناروے اور تھایلنڈ کی سفارت کاری کے معاملے کو بلا وجہ دھونے کی کوشش کی، اب تک سمجھ نہیںآتی  کے اس کی ضرورت آپ کو کیوں محسوس ہوئی تھی. کیا یہ حقیقت نہیں ہے کے میاں صاحب کے پہلے اور دوسرے دور میں آپ نے جم کے مزے لیے؟ آپ جتنی صفایاں پیش کر دیں، قوم کی یاد داشت اتنی بھی کمزور نہیں ہے. پلاٹ اور لفافے تو چلیۓ ثابت کرنے کی بات ہے لہٰذا اس بحس میں نہیں پڑینگے مگر جو کچھ سامنے کی بات تھی اس سے انکار کیسے کرنگے آپ؟ اس کے علاوہ میں دعویٰ کرتا ہوں کے پچھلے پانچ سالوں کی تحریروں میں ایک تحریر بھی آپ کی میاں صاحب پر "ٹھوس" تنقید پر مبنی نہیں. یہی نہیں  بلکے آپ کی ہر تحریر میں جس طرح مکّاری کے ساتھ میاں برادران کی امیج بلڈنگ کی ناکام کوشش ہوتی ہے وہ اندھا بھی دیکھ سکتا ہے.

عجیب ہی ماہرین دیکھے، جو ایک سیاسی پارٹی کو اس کے اجنڈے، پروگرام یا پچھلے رکورڈ کے بجاے، چند ایک بدتمیز سپورٹروں کی بنیاد پر جج کر رہے ہیں. ان میں کچھ واقعی حقیقی ہونگے اور ظاہر ہے الله سے ان کی ہدایت کی دعا ہی کی جا سکتی ہے مگر کون نہیں جانتا کے سوشل میڈیا پر نقلی آئ ڈی بنانا کون سا مشکل کام ہے؟ خطوط کس نی لکھے کہاں سے آے اس کے لیہ ایک جانبدار آدمی کی گواہی کیکتنی حیثیت ہے؟ ویسے بھی یہ شکایات عام آدمی کرتا ہوا اچھا لگتا ہے ، وہ لوگ نہیں جو خود کو سینئر "تجزیہ" نگار کہلوانے کے شوقین ہوتے ہیں.

عطا صاحب اس جماعت کے سوا کروڑ ممبر اور کروڑوں سپورٹر ہیں. ہر شخص اپنی ذہنی سطح کے مطابق آپ سے دو دو ہاتھ کرتا ہے. یقینن بدتمیزی انتہائی قبل مزممت ہے. سوشل میڈیا پر کوئی تنگ کرے تو اسے بلاک کر دیں، نہیں آتا تو تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم مدد کو حاضر ہے. خط ردی کی ٹوکری کی زینت بنایے، اور فون کال ٹریس کرنا کوئی مثلا نہیں ہے. براہ راست کوئی تنگ کرتا ہے تو تحریک انصاف کے یہی جوان آپ کی حمایت میں کیسے کھڑے ہونگے یہ آپ بھی دیکھیںگے. اگر کوئی تحریک انصاف کا آفس بیرر ہے تو شکایت رجسٹر کرایے اور اگر عام سپورٹر ہے تو خادم ا علا سے کہیہ کے تھانہ کا نظام ٹھیک کریں تاکے آپ جیسوں کی شکایات درج کی جا سکیں اور موسّر کارروایی ہو سکے یہ شور مچا کر آپ اب کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ 

بہرحال آپ کی آج کی تحریر نی کچھ ثابت کہ ہو یا نہیں، آج سے یہ ضرور پکّا کر دیا ہے کے جن کے دل میں پہلے رتی برابر بھی شک تھا اب وہ آپ کی تحریروں کو ایک جانبدار آدمی کی حیثیت سے ہی پڑھینگے اور نتیجتن آپ کی بلا وجہ کی سیاہ کو سفید کہنے کی ناکام کوشش کو اچھی طرح سمجھ پاینگے. عطاالحق صاحب افسوس کے ساتھ یاد دہانی کرانی پڑے گی کے عزت بنانے میں کیی سال لگتے ہیں ، مگر گرانے میں ایک لمحا کافی ہوتا ہے، آپ تو پھر خوشقسمت ہیں کے آپ کو ان گنت تحریریں اور کیی سال لگے.اگر واقعی آپ نےتحریک انصاف پر تنقید کرنی ہے تو کچھ ٹھوس لایں، ان اوچھے ہتھکنڈو کا بھی وہی حشر ہوگا جو عمران کی ازدواجی زندگی کی بربادی سے لے کر امن مارچ پر بے سرو پا تنقید کا ہوا ہے.  اس قوم نی کیی منجن خریدے ہیں ، اب کی بار دکان پر کوئی "سچا" مال بیچیں، یہ پی ٹی وی پر نلکوں اور سڑکوں کی افتتاحی تقریبوں، اور سیلاب زدگان کے ساتھ فوٹو سیشن کروا کر کھوٹے کو کھرا ثابت کرنے کا زمانہ نہیں ہے. یہاں بکتا تو سب ہے مگر یاد رکھیے دکھتا بھی سب ہے. یہ صحافی گردی یہاں نہیں چلے گی.

Monday 1 October 2012

Tajzye, Tehreek e Insaf Aur Darbari


Tajzyeh, Tehreek e Insaf aur Darbari

By: Taqveem Ahsan Siddiqui

 تجزیے، تحریک انصاف اور درباری

تقویم احسن صدیقی



زراع ابلاغ کے بارے میں مشہور ہے کے اس میں اگر جھوٹ تسلسل سے بولا جائے، غیر منطقی بات کو منطق پر اگر مسلسل فوقیت دی جائے تو ایک وقت آتا ہے جب جھوٹ سچ بن جاتا ہے اور منطق منوں مٹی تلے کہیں دب جاتی ہے. ایسی باتوں کا ایک نقصان نام نہاد تجزیہ نگاروں کو، خود فریبی کی شکل میں بھی ہوتا ہے. ایسے لوگ اپنی سوچ سے مختلف نتائج آنے پر خامخوا حیران ہوتے ہیں اور ان کی وجوہات اندرونی و بیرونی سازشوں اور اجنسیوں کی کرامات میں ڈھونڈتے ہیں. اس میں کچھ ہاتھ خود کی گزشتہ کارگزاری کا بھی ہوتا ہے. جبکے حقیقت یہ ہے کے زمینی حقائق سے لاکھ نظریں چرائی جائیں، وہ خود کو منوا کر رہتے ہیں، جلد یا بدیر

فلوقت مرے زیر نظر ایک کالم ہے جس میں ایک جیالے قسم کے لکھاری صاحب نے اپنی پوری قوت یہ باور کرانے پر لگا دی ہے کے آنے والے انتخابات میں تحریک ا انصاف نواز شریف کی جماعت کو بھرپور ڈنٹ لگایے گی. چلیے صاب یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے مگر آگے چل کر موصوف اپنی تمام فکری قوّت مجتمع کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کے کپتان کی جماعت اگلا انتخابی میچ ہار جائے گی ہاں مگر مسلم لیگ کا ووٹ بری طرح متاثر کرے گی. مسلم لیگ کا ووٹ بنک خراب کر کے بھی تحریک انصاف کیسے ہار جائے گی، اور کیا صرف مسلم لیگ کا ووٹر ہی کٹ کے کپتان کی جماعت کو ووٹ دے گا، ان سوالو کا جواب شاید لکھاری صاحب کے پاس نہیں تھا یا جن بوجھ کر حذف کر دیا. یا شاید پس منظر میں یہ خواہش طفلانہ مچل رہی ہو کے پی پی پی اس "سچویشن" کا فائدہ اٹھا کر میدان مار لیگی. اور اس کی حمایت میں موصوف، علی موسا گیلانی کا انتخاب پیش کرتے ہیں. دور کی کوڑی ہے صاب، شاید مرے اور آپ کی سمجھ میں نہ اے. مگر انہوں نی تو بات کر دی، اب آپ تخیل کے گھوڑے دوڑاتے رہیں، اگر کچ سمجھ آے تو مجھ نا عقل کو بھی سمجھا دیں

جہاں تک اس ناچیز کی عقل کام کرتی ہے، ٢٠٠٨ کے الکشن کا ٹرن اوٹ تقریبن تنتالیس فیصد سے کچھ زیادہ تھا. سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق چالیس فیصد ووٹ بوگس تھا. اگر یہ چالیس فیصد کا تخمینہ ٹوٹل کاسٹ کیۓ گئے ووٹ پر لگایا جائے تو اصل ٹرن اوٹ کوئی پچیس فیصد بنتا ہے. اب اس پچیس فیصد کے نتیجے میں قائم ہوئی جمہوریت پر بحس کسی اور روز کے لئے چھوڑتے ہیں

فلحال تو یہ نظر آ رہا ہے کے میاں صاحب پنجاب میں بلا شرکت غیرے ٢٠٠٨ کا انتخاب لڑنے گئے. یا یوں کہیہ کے اپوزیشن کی واحد پارٹی  تھی جس نی انتخاب لڑا. اس اکیلی ریس میں میاں صاحب کی جماعت نی سرسٹھ سیٹوں کا تیر مارا. ٣ آزاد امیدواروں اور بیس مخصوص نشستوں کے ساتھ ٩٠ سیٹیں ہی لے  پاے. وہ بھی صرف پنجاب میں. تو ظاہر یہ ہوا کے میاں صاحب کی قوت کم و بیش اتنی ہی تھی

اپ پی پی پی پر نظر ڈالیں تو ٢٠٠٨ کی زخم خوردہ پی پی پی اور آج کی مقتدر پی پی پی کی مقبولیت میں واضح فرق نظر آتا ہے. ٢٠٠٨ کے الکشن میں جب بی بی کا زخم تازہ تھا، اور میاں صاحب بھی زرداری صاحب کے واری جا رہے تھے،
پی پی پی نی جنرل نشستوں میں سے صرف ٩١ سیٹیں حاصل کیں. اس کے بعد سات آزاد امیدواروں اور تقریبن ستائیس مخصوص نشستوں کے کندھے پر سوار ہو کے ١٢٥ سیٹیں ہی جوڑ  پائی. ٢٠٠٨ کی پی پی پی اور آج کی زرداری لیگ میں زمین آسمان کا فرق ہے. بی بی کے قتل سے پڑنے والا ہمدردی کا ووٹ بھی ختم ہو گیا. اس کے علاوہ کارکردگی سب کے سامنے ہی ہے، کوئی انڈیکیٹر ان کے حق میں نہیں ہے. عوام بیزار ہو چکے، جس کا اشارہ وہ تمام سروے بھی دیتے ہیں جنہوں نے ٢٠٠٨ میں پی پی پی کو پچاس فیصد مقبولیت کے ساتھ سر فہرست قرار دیا تھا، (کسی حد تک ٹھیک بھی تھا، الکشن میں اس کی تصدیق بھی ہو گئی). وہی سروے آج پی پی پی کو پاکستان کی سب سے غیر مقبول جماعت بتا رہے ہیں. آصف زرداری صاحب نی پچاس فیصد مقبولیت کو ٹھڈے مار مار کے چودہ فیصد تک پہنچا دیا. جیسے جیسے انتخاب قریب آ رہا ہے پی پی پی زوال کی نچلی ترین حدوں کو چھو رہی ہے

اب ذرا این اے ١٥١ کے بائی الکشن پر بھی نظر ڈال ہی لیں. ضمنی انتخاب ویسے تو کسی طور بھی عام انتخابات کا پیمانہ نہیں. مشرف صاحب کی قاف لیگ ٢٠٠٨ سے پہلے کے تمام ضمنی انتخابات جیتی تھی. ٢٠٠٨ کا حشر سب کے سامنے ہے.
اب سرسری نظر این اے ١٥١ پر ڈالیں تو جس حلقے سے موسیٰ گیلانی کے ابو جان پچھتر ہزار کے قریب ووٹ لے کے جیتے تھے وہاں صاحبزادے نے تمام حکومتی مشینری استمعال کر کے بھی چونسٹھ ہزار ووٹ ہی لئے. اس سے بھی اہم بات کے کوئی تیس ہزار ووٹوں کا فرق صرف ساڑھے تین ہزار پر آگیا. یعنی ایک آزاد امیدوار نے ساٹھ ہزار سے کچھ اوپر ووٹ لیے. ووٹر ٹرن آوٹ بھی آدھے سے کم تھا.
اب اس ضمنی انتخاب پر کیا بحس کی جائے. سمجھنے والے نوشتہ دیوار خود پڑھ سکتے ہیں.

ہمارے درباری قسم کے اور جیالے نقادوں کو اب یہ کون بتاۓ کے کپتان کی طاقت نواز شریف یا پی پی پی کا پرانا ووٹر ہرگز نہیں ہے. اس کی اصل طاقت تو وہ تین کروڑ نوے لاکھ ووٹر ہے جو نیا رجسٹر ہوا ہے. اس میں سے ٣ کروڑ وہ ووٹر ہے جس کی عمر اٹھارہ سے پینتیس سال کے درمیان ہے اور وہ پہلی بار ووٹ ڈالے گا. پھر وو عوام بھی ہے جو بد دلی کی وجہ سے آج تک انتخابی عمل سے دور رہی. یہ کل ووٹوں کا تقریبن چھے کروڑ بنتا ہے.

مرکز ہو یا کوئی بھی صوبہ، اسمبلیوں پر قابض ٹولہ کسی ایک کو بھی تو نہیں چلا سکا. یہ جمہوریت کا تسلسل، سترویں اٹھارویں انیس بیس تیس ترمیمیں، میو ہسپتال کے "دلیرانہ " دورے، مفاہمتی سیاست وغیرہ کے بے معنی ڈھکوسلے ذرا روز مرنے اور کٹنے والی عوام، مہنگائی، بجلی پانی گیس موبائل فون کی لوڈ شڈنگ کے ذریے ڈرائنگ روم کی سر کرتے مصیبت زدہ لوگ، مفاہمت کے نام پر  بنیادی حقوق سے محروم عوام کو سنائیے اور دیکھیے کتنی "داد و تحسین" کے ساتھ آپ کا "استقبال" ہوتا ہے. یہ تباہ حال عوام اس موجودہ تماشے سے کتنے خوش ہیں، یہ جاننے کے لئے کسی مہارت یا سروے کی ضرورت نہیں. تخت لاہور کے لئے تو لاہور ہی پورا پنجاب ہے. وہاں بھی بازی پلٹنے کو ہے، باقی پنجاب کا تو ذکر ہی کیا.
اب اس تناظر میں کوئی ہمیں یہ سمجھاے کے میاں صاحب کا ووٹ تقسیم ہو گا اور فائدہ کسی تیسرے کو ہوگا، تو بھائی تمام ذہنی صلاحیتیں صرف کر کے بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی. جس کے سمجھ آتی ہو وہ  کسی "ٹھوس" ثبوت کے سہارے قوم کو سمجھاۓ، خامخوا گمراہ کرنے کی کوشش صرف آپ کی ذہنی صلاحیت اور نیت پر شکوک ہی پیدا کرے گی اور کچھ نہیں .
  
عوام کو بھی یہ سوچنا ہوگا کے کیا انھیں سطحی تجزیوں اور "سیانو" کی باتوں کے ذریے اپنے عقل و فہم کا مزاق اڑانا منظور ہے؟ یہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا بھی چاہتے ہیں یا واقعی ان کی موت ہو چکی ہے. عوام کی کھال اتار کر انہی کے ووٹوں کا ڈھٹائی سے ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے الفاظ جوتے بن کے منہ پے پڑتے محسوس ہوتے ہیں یا نہیں ؟ کیا یہ درباری اور جیالے قسم کے نقّاد آپ کو بتائینگے کے آپ کو کیا کرنا ہے؟ جب آپ کی سوچ اور فہم کا مزاق یہ کہ کر اڑایا جاتا ہے کے "کچھ بھی ہو ووٹ انہو نے اپنے "مالکوں" کو ہی دینا ہے " تو اندر ہی اندر خود کی تذلیل محسوس نہیں ہوتی؟ اگر واقعی ہم چند سڑکوں ، پلوں ، لپ ٹاپ ، ہزار روپے کی انکم سپورٹ،  اور آئینی ترمیموں پر پگھل جانے والی قوم ہیں ، تو پھر ہمارا انجام نوشتہ دیوار ہے. 

باقی تمام درباریوں کی خدمت میں عرض ہے کے اپنی اپنی جماعتوں کی فکر کریں اور دوسری جماعتوں کا غم ان پر ہی چھوڑ دیں. یہ ایلکتبلس اور "پکی سیٹوں " کی سیاست آپ کو اور آپ کے مالکوں کو ہی مبارک ہو. جب انتخاب کے وقت یہ نوجوان اٹھیںگے تو کس کس کی ضمانتیں ضبط ہونگی، یہ وقت بتاۓ گا.

 مضحکہ خیز بات یہ ہے کے جن سروے کو یہ درباری پہلے نہیں مانتے تھے، خان کی پارٹی کو لگنے والے ذرا سے ڈینٹ پر چلانگے لگا رہے ہیں. خان نے پہلے بھی ان کو تسلیم کہ تھا اور اب بھی کرتا ہے. تمام نقادوں کو  بس اتنا یاد رہے کے جب عام انتخاب سے پہلے کوئی سروے اے تو یاد سے اس کو بھی اسی طرح مان لیں اور میڈیا میں لائیں. کپتان کی کامیابی کے ثبوت کے لئے دیدہ وروں کے لئے اتنا کافی ہے کے سندھ سے لے کر خیبر پختونخوا تک، اسمبلی میں موجود تمام جماعتیں بشمول اپنے درباری نققادوں کے تحریک انصاف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہیں. ویسے بھی جن کے نزدیک کامیاب سیاست کا مطلب لوٹ مار، چور بازاری، اقتدار اور پیسے کی بندر بانٹ کے ذریے اقتدار کو دوام بخشنا ہو، جو مکروہ جوڑ توڑ اور عوام کے خون سے ہاتھ رنگ کے خود کو بچانے والوں کی شرمناک درندگی پر انھیں "کامیاب سیاست دان" ہونے کا سرٹیفکیٹ دے کر شاباش کی تالیاں بجاتے ہوں، ان کے منہ اور قلم سے اصول اور اصولی سیاست کی باتیں انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہیں. ویسے بھی ایسے لوگوں سے اصول پرستی اور اصولی سیاست پر تنقید کے علاوہ اور کیا امید کی جا سکتی ہے.  ذرا روایتی عینک اتار کے موجودہ حالات سے بیزار نوجوانو کے غصّے کا بھی ادراک کر لیں. ان کا خون رواں ہے،  یہ ایک فیصلہ کر بیٹھے ہیں اور جب یہ کچھ ٹھان لیتے ہیں تو تمام جوڑ توڑ، تدبیریں، حساب کتاب اور تجزیے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں.