Wednesday 2 December 2020

Why Did Ishaq Dar go for BBC Hard Talk interview?

 بی بی سی، بڑے بے آبرو ہوکے۔۔ ڈار انٹرویو میں گیا کیوں تھا؟ 

تحریرتقویم احسن صدیقی

لوگ مزاق مزاق میں کہ رہے ہیں “ڈار کو کس نے مشورہ دیا تھا بی بی سیانٹرویو کا۔۔

مزاق اپنی جگہ لیکن یہ اتنی بھی مزاق کی بات نہیں۔۔ تفصیل بتاتا ہوں اس کے بعد ضرور ہمسی آۓ گی ۔۔ “بھیجنے والوں” کا پلاناور اس کی دھجیاں اڑنے کے بعد 😂۔۔

اب سنیے، رضا رومی نام کا موم بتیا ایک (سرخا نام نہاد لبرل بنا ہواپراپگینڈا سائٹ چلاتا ہے ۔۔ جسے اس نے نیا دور میڈیا کا نامدیا ہوا ہے۔۔ اس کے پیچھے پاکستان کا سارا نام نہاد لبرل کباڑ خانہ ہے (جن نام نہاد کباڑ خانہ اس لیے کہ پاکستانی لبرلز کی یہ والینسل کا لبرلزم فری کی دارو مذہب بیزاری مطالعہ پاکستان کو گالیاں دو قومی نظریے کو گالیاں ریاست کو گالیاں(اس وقت جب انکیمرضی کی گورنمنٹ نا ہواور فری سیکس تک محدود ہے)۔۔ خیر اس نیا دور میڈیا کا Backerحسین حقانی کا SAATH فورم بھی ہے۔۔ وہی ساتھ فورم جس کے چوچوں میں ماروی سرمد وقاص گورایہ ( توہین رسالت والا خبیث دہریہ)، گل بخاری، گلالئی اسماعیل طہصدیقی عائشہ صدیقہ جیسا کباڑ خانہ شامل ہے۔۔ اور یہ ساتھ فورم ، نیا دور میڈیا وغیرہ نون لیگ کے PR AGENT بنے ہوۓ ہیں(اسی کی مار پڑ رہی ہے اس چور شریف کے پورے ٹبر کو)۔۔ خیر ان لوگوں کے ذریعے کوشش کر کے انٹرویو سیٹ کروایا گیا ۔۔اس سے پہلے اسلام آباد میں مقیم اسی کباڑ خانہ ٹبر کے ایک منظور پشتین کی پی ٹی ایم کے پروموٹر نام نہاد صحافی کے ذریعے بی بی سیپر ایک آرٹیکل لکھوایا گیا اسی منجن کے ساتھ کے پاکستان میں عمران خان کے خلاف تحریک چل رہی ہے اور یہ ہو جاۓ گا وہ ہوجاۓ گا۔۔ ان کے جلسوں کو بین الاقوامی سطح پر گھاس نہیں ڈالی کسی نے، آرٹیکل بھی فلاپ ہو گیا، جلسوں میں ریاستپاکستان فوج اور عمران خان کے خلاف اگلا ہوا ذہر بھی بس حامد میر منصور نسیم ذھرہ عاصمہ حاجن بے نظیر شاہ شاہزیب سلیمصافی ٹائپ راتب خوروں کی ہوا بھرنے سے ذیادہ آگے نا بڑہا ۔۔ تو پلان یہ کیا گیا کہ کسی طرح بی بی سی ہارڈ ٹاک تک رسائی ملے اورپھر وہاں بیٹھ کر وہ ذھر اگلا جاۓ جو یہ جلسوں میں اگل رہے ہیں لیکن کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔۔ نواز شریف کو بھیجنے کا سوچا گیالیکن اس کدو کی ہوا خشک ہوگئی انگریزی اور اتنے بڑے پلیٹ فارم کا سوچ کر اور پھر بیماری کی ریپوٹیشن خراب ہوتی ویزاایکسٹینشن میں مسئلہ آسکتا تھا۔۔ لہذا قرعہ فال ڈار کے نام نکلا ۔۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ اس کنجر انسان نے کچھ اصطلاحاتاستعمال کی تھیں جیسے کے گورنمنٹ کے بجاۓ “Regime” “Human Rights” “Fascist” وغیرہ وغیرہ ۔۔ سمجھنے والے جانتے ہیںکے مغرب میں ان الفاظ کو کس لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔۔ یہ ساری ہلاننگ ساتھ فورم سے “TIPS” لے کر گئی ۔۔ پلان تھاصاحب بہادر جائینگے اور بی بی سی پر عمران خان کو گالیاں دینگے، فوج کو گالیاں دینگے، سازشی تھیوریاں بیان کرینگے، پاکستان کو ایکناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کرینگے، انتخابات کی دھاندھلی کا رونا روئنگے اور اسٹیفن سیکر حیرانگی سے ان کی باتیں سنے گا😂۔۔ خیر تو جی ڈار صاحب پہنچ گۓ ۔۔ ان کو کیا پتہ تھا کہ آگے ان کا باپ بیٹھا ہے ، کوئی حامد میر عاصمہ شیرازی ندیم ملک نہیں۔۔ ان کا اپنا ایک “ببل” ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے ہی جھوٹ کو خود سچ سمجھنے لگ گۓ ہیں ۔۔لیکن ان کو یہ نہیں پتہ کے دنیاان ذلیل لوگوں کو بالکل اسی طرح دیکھتی اور سمجھتی ہے جیسے چور ڈاکو مجرم کو سمجھنا چاہیے ۔۔ اور وہی ہوا ، اسٹیفن ساکر نےشو شروع ہی اسے یہ یاد دلا کر کیا کہ “تم ایک اشتہاری ہو” ۔۔ اس کے اگلے منٹ میں اس پر واضح کر دیا کہ حقیقت صرف یہ ہےکہ “نواز شریف ایک سزا یافتہ مجرم ہے” پھر اگلے منٹ میں الیکشن دھاندھلی کابیانیہ اٹھا کر باہر پھینک دیا انٹرنیشنل آبزرورز کیرپورٹ کا حوالہ دے کر۔۔ بار بار یاد دلایا کے دھاندھلی کا رونا ڈرامے بازی ہے ، اگلی باری میں اس کے اثاثوں کے بارے سوالکرکے اس کو رگڑ دیا ۔۔ پھر بار بار اسے کہتا رہا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اتنے سچے ہو اور قوم کا درد ہے تو اپنے ملک جاؤ۔۔پھراس کی اور نواز شریف کی بیماری پر طنز کیا ۔۔ یاد دلایا کہ تم تو ڈکٹیٹر کی گود میں پیدا ہوۓ تھے، شرم دلائی کے اپنی فوج کے بارےمیں کوئی کیسے بکواس کر سکتا ہے جو تم کر رہے ہو، یاد دلایا کے عمران خان کس طرح اپنی قوم کے لیے کھڑا ہے ۔۔ الغرض نونلیگ اور ساتھ فورم کا خوابوں کا محل جوتوں کے نیچے رکھ کر مسل دیا ۔۔ جو سوچ کر گۓ تھے اس کا الٹ ہوگیا۔۔ پورے جہانمیں ذلیل ہوگۓ۔۔ ۲۳ منٹ کے انٹرویو میں صرف ذلت حصے میں آئی ۔۔ اب “نیا دور” میڈیا سے جڑے چند ٹچے اور ان کے پیآر ایجنٹ آپ کو ڈزاسٹر  مینیجمنٹ کرتے نظر آئینگے ۔۔  اور جناب اس طرح بڑے بے آبرو ہو کے بی بی سی کے کوچے سے یہنکلے 😏

Sunday 4 October 2020

Ponzi Schemes in Pakistan advertised as Business Investment

 گھر پیٹھے 25 ہزار مہینہ کمائیے۔۔ گھر بیٹھے 20 فیصد منافع کمائیے ۔۔ گھر بیٹھے کاروبار، کیا آپ گھر بیٹھے صرف تین گھنٹے روزانہ لگا کر 500ڈالر ماہانا کمانا چاہتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔

یہ اشتہارات آپ نے جا بجا دیواروں پر اور اب انٹرنیٹ پر دیکھے ہونگے۔ آج کل لوگوں کو کاروبار کا تاثر دے کر “انویسٹمینٹ کمپنی” کے نام پر یہ دھندا پہلے سے کہیں ذیادہ بڑھ چکا ہے۔ آگے کچھ لکھنے سے پہلے ایک بات سمجھ لیجیے دنیا کا کوئی بھی کاروبار اگر آپ کو گھر بیٹھے 20 فیصد منافع کی رقم پہنچانے کا دعوی کر رہا ہے تو 99فیصد چانس یہ ہے کہ یہ فراڈ ہے۔ جس ٹاپک پر لکھ رہا ہوں اس کو سمجھنے کے لیے “پونزی” یا “پائرامڈ اسکیم”  گوگل کر لیں سب سمجھ آ جاۓ گا۔ 

دنیا بھر میں اس قسم کی پونزی اسکیمز چلتی ہیں لیکن کچھ برسوں سے وطن عزیز میں اس کا تناسب کئی گنا بڑھ رہا ہے اور کئی پڑھے لکھے افراد بھی جب تک دھوکہ نہیں کھا لیتے انہیں یقین ہی نہیں آتا کے یہ فراڈ ہے چاہے آپ انہیں کتنا ہی سمجھا لیں۔ 

کوئی بھی کاروبار اس بنیادی اصول پر چلتا ہے کہ آپ اپنا ہنر جس کی کسی کو ضرورت ہے وہ ایک معاوضے کے عوض بیچ رہے ہیں یا کوئی شہ ایک جگہ سے سستی خرید کر یا خود بنا کر دوسری جگہ منافع پر بیچ رہے ہیں۔ بغیر ہنر بغیر کوئی جنس بغیر کسی شہ کی تجارت خرید و فروخت اگر آپ اس آسرے پر کہیں رقم لگا رہے ہیں کے آپ کو کوئی محنت نا کرنی پڑے اور بس گھر بیٹھے منافع ملے تو وہ صرف اس صورت میں اصل ہو سکتی ہے کے آپ کسی بینک میں سود پر پیسے رکھ دیں اس کے علاوہ تقریباً سب دعوے فراڈ ہوتے ہیں چاہے آپ کو کچھ بھی دکھا کر یقین دلایا جاۓ۔ ایک اور بات سمجھ لیں کے تمام خرچے وغیرہ نکال کر اگر کوئی کاروبار آپ کو ۱۵ سے ۲۰ فیصد منافع دے رہا ہے تو وہ ایک انتہائی کامیاب کاروبار تصور کیا جا سکتا ہے اور یہ اگر اتنا آسان ہوتا تو دنیا کا ہر شخص ایک کامیاب کاروباری ہوتا۔ کوئی نام نہاد  کاروباری انویسٹمنٹ والا اگر آپ کو گھر بیٹھے بینک کے منافع سے ذیادہ رقم دینے کا دعوی کر رہا ہے تو اسے فراڈ ہی سمجھیں چاہے وہ آپ کو کوئی بھی ثبوت دکھا دے۔ 

ہم چھوٹے تھے تب اس قسم کی پونزی اسکیمز آنا شروع ہوئیں۔ وارداتیے اچھے اچھے نام سے انوسٹمنٹ کمپنی کے رنگ برنگے بروشر چھپوا کر سادہ لوح عوام کے حوالے کر دیتے تھے کہ اب آپ اسے اپنے دوستوں رشتے داروں میں لے جائیں اور دس دس ہزار روپے میں دس لوگوں کو بیچیں، تو آپ کا ایک لیول اپ ہو جاۓ گا اور ان دس لوگوں سے ہر مہینے آپ کو ایک ایک ہزار روپے ملینگے (یعنی دس ہزار مہینہ)۔ ساتھ کہ دیتے کہ آپ کی انویسٹمنٹ ایک مہینے میں واپس اب آپ کتنی جلدی یہ دس لوگ “ریکروٹ” کرتے ہیں یہ آپ کی “کاروباری قابلیت” پر منحصر ہے۔ ہر پونزی اسکیم کے شروع میں یہ ماہانہ پیمنٹس لوگوں کے اکاؤنٹ میں جاتی تھیں اور سادہ لوح افراد کو “ثبوت” کے طور پر  پیش کی جاتی تھیں۔ مجھے یاد ہے ایسی ہی ایک اسکیم نوے کی دہائی میں “گولڈن کی” کے نام سے چلی تھی۔ ہمارے گھر بھی چند جاننے والے اسکیم کا بروشر لے کر آۓ اور والد صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے، آپ کے لیۓ 25ہزار کون سی بڑی بات ہے آپ لے لیجیے منافع ایک مہینے میں پورا ہو جاۓ گا اور میرا ٹارگٹ بھی پورا ہو جاۓ گا اور ایک سال میں اگر آپ محنت کریں تو اس کا دس گنا آپ بھی کما لینگے۔ مرشدی والد صاحب تسلی سے سن کر ان سے دو سوال کرتے تھے

 سوال نمبر ۱:  اس میں کیا آپ کوئی سروس، کوئی چیز یا کوئی جنس بیچ رہے ہیں کوئی تجارت ہے؟ 

سوال نمبر۲:  کیا آپ گھر بیٹھے مجھے بغیر محنت بغیر کسی خرید و فروخت بینک کے منافع سے دوگنا تین گنا منافع دینے کی بات کر رہے ہیں؟

اگر آپ کا جواب نمبر ایک “نہیں” اور جواب نمبر دو “ہاں” میں ہے تو براۓ مہربانی اپنے کاغذات اٹھا لیں اور مجھے معاف کریں، اور خود بھی اس فراڈ کو سمجھیں تاکہ بعد میں دوستوں رشتے داروں سے منہ چھپاتے نا پھریں۔ ایک دو اصحاب برا مان کر چلے گۓ اور ایک والد صاحب کو مغرور اور ناسمجھ سمجھ کر اٹھے اور چھ مہینے بعد دوستوں رشتےداروں سے چھپتے ہوۓ پاۓ گۓ۔ 

ایسی ہی چند اسکیمیں نئے  پیکٹ میں پرانے طریقہ واردات کے ساتھ اس وقت مارکیٹ میں ذیر گردش دیکھیں۔ آج کل انہیں “انوسٹمنٹ” کمپنی کے نام سے متعارف کروایا جا رہا ہے۔ کوئی بی فور یو کہ نام سے میں نے فیسبک اشتہار بھی دیکھے، ان کی بڑیبڑی کانفرنسیں اور عربوں انگرویزوں کے ساتھ تصویریں بھی دیکھیں۔ یہ وہی دھندا ہے اور کیونکہ ہمارے معاشرے میں سہل پسندی، گھر بیٹھے بغیر ہاتھ پاؤں چلاۓ “ایکسٹرا” انکم کی خواہش، راتوں رات کروڑ پتی بن جانے کے خواب، وغیرہ آج کل پہلے سے کہیں ذیادہ عام ہیں تو ان کی اسکیمیں بھی پہلے سے کہیں ذیادہ ذور و شور سے مارکیٹ ہو رہی ہیں اور سادہ لوح افراد بےوقوف بن رہے ہیں۔ یاد رکھیے یہ لوگ انسان کے اندر لالچ کی فطرت پر کھیلتے ہیں۔ یہ آپ کو ایسے موڑ پر لے آئینگے کے آپ کو لگے گا آپ نے اگر اس “اپارچونٹی” سے فائدہ نا اٹھایا تو آپ دنیا کے ناکام ترین اور بےوقوف ترین انسان ہونگے۔ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو دوبارہ نہیں آۓ گا وغیرہ وغیرہ۔ خدا کے لیۓ ایسی کسی بھی اسکیم سے بچیں اور اگر آپ کا کوئی قریبی اس فریب میں آگیا ہے تو اسے بھی بچائیں۔ یاد رکھیں اگر کوئی کاروبار آپ کو بغیر کسی شہ کی تجارت، بغیر ہنر کی فراہمی ، بغیر کسی سروس کی فراہمی یا کاروباری قوانین اور ٹیکس مار کر منافع پہنچانے والے کسی بھی دھندے کو کاروبار بنا کر پیش کر رہا ہے تو وہ کاروبار نہیں۔ دھوکہ ہے ۔۔ اس سے بچیں۔ کاروبار کا شوق ہے تو یا تو کسی ہنر میں مہارت حاصل کریں، مفید اسکلز  کی ٹریننگ حاصل کرنے ہر پیسے خرچ کریں، کسی سروس کی فراہمی پر کام کریں یا اشیا کی خرید و فروخت کے حوالے سے “سپلائی چین” سٹڈی کریں، کسی چیز کی مینوفیکچرنگ یا پروڈکشن کے حوالے سے اسٹڈی کریں اور مجوزہ قوانین کے مطابق اس کاروبار کا بزنس کیس بنائیں فیزیبیلیٹی بنائیں پلاننگ کریں معلومات حاصل کریں اور پھر کاروبار کریں۔ بغیر محنت بغیر کوشش دنیا کا کوئی کاروبار نہیں ہوتا ۔۔اور جو ہوتا ہے وہ دھوکہ ہوتا ہے جو انسانوں کے اندر چھپی لالچ کو ابھار کر ان کی اپنی خون پسینے کی کمائی سے محرومی پر ختم ہوتا ہے۔

خیرخواہ،

تقویم احسن صدیقی