Friday 19 May 2023

Cuz I was Talking!!!

 

کیونکہ میں بول رہا تھا!

تقویم احسن صدیقی



تم چاہتے تو بول سکتے تھے۔۔

تم چاہتے تو بول سکتے تھے۔۔
تم کہ سکتے تھے مجھے سانس نہیں آرہا۔۔
پھر جب بہت سال گزر جاتے ۔۔
وقت کے فیصلے دے دیے جاتے۔۔
جبر کے بادل چھٹ جاتے ۔۔
تمہارے بچے تم سے پوچھتے ۔۔
آپ کہاں تھے۔۔۔
تم کہتے میں وہیں تھا، کیونکہ، میں بول رہا تھا۔۔
میں بول رہا تھا جب کوئی نہیں بول رہا تھا۔۔
جب کلیجے منہ کو آتے تھے۔۔
میں دوا کر رہا تھا۔۔
میں بول رہا تھا
جبر تھا، ظلم تھا، فسطائی راج تھا مگر۔۔
میں بول رہا تھا۔۔
میں بول رہا تھا کہ دیکھو۔۔
ہمیں سانس نہیں آرہا۔۔
دم گھٹ رہا ہے۔۔ میں بول رہا تھا۔۔
میں بول رہا تھا کہ دیکھو۔۔
سب لٹ رہا ہے۔۔
میں بول رہا تھا کہ سنو۔۔
ان کو بولنے دو۔۔
میں بول رہا تھا کہ دیکھو۔۔
یہ نہیں جھکینگے۔۔
آواز انہیں چبھ رہی تھی۔۔
آواز انہیں تنگ کر رہی تھی۔۔
میں بول رہا تھا ۔۔
خون کے دھبے تھے، کچھ راکھ تھی۔۔
سب جل رہا تھا۔۔
میں دیکھ رہا تھا اور بول رہا تھا۔۔
کچھ منافق تھے، نقاب اتر رہے تھے۔۔
سب کچھ دکھ رہاتھا، میں بول رہا تھا۔۔
ردائیں اجڑ رہی تھیں، چادریں چھن رہی تھیں۔۔
میں بول رہا تھا، ہاں میں بول رہا تھا۔۔
منظر سے پس منظر کیا۔۔
میں پھر بھی بول رہا تھا۔۔
آواز تھی ۔۔ جو پہنچ رہی تھی۔۔
مظلوم کا صبر، ظالم کی تکلیف تھی۔۔
میں وہیں تھا ۔۔ میں ذندہ تھا۔۔
کیونکہ ۔۔ میں بول رہا تھا!