Wednesday 12 September 2012

Teen So Sawal


By: Taqveem Ahsan Siddiqui

تین سو سوال

تقویم احسن صدیقی
بھوک سے جان دیں،افلاس سے مریں ، سیلاب میں ، زلزلے میں ، دہشت گردی میں یا فکٹریوں میں جل کر مریں، ہم پاکستانی عوام ، اب خواص کے لیے محظ اعداد بن کے رہ گئے ہیں. مری سمجھ میں نہیں آ رہا کے ان ٣٠٠ محنت کشوں کو، جو کراچی کی فکٹری میں جل گئے، کس جرم کی سزا ملی. شاید وو نہیں جانتے تھے کے پچھلے کیی برسوں سے انجانے میں وہ اپنے انجام کو خود تحریر کر رہے تھے.
شاید ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جن کو یہ احساس نہ ہو، کے یہ جو جل گئے، یہ صرف انسان نہیں تھے، یہ مرے ملک کے وہ ہاتھ تھے جن کی ہنرمندی اور محنت ہماری فکٹریوں کے لئے روح کی حیثیت رکھتی ہے. ٣٠٠ خاندان پلک جھپکتے میں کفالت سے محروم ہو گئے اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے.

 مشیر داخلہ فرماتے ہیں، فکٹری مالکان تمام ورثہ کو پانچ پانچ لاکھ معاوضہ ادا کریں.گویا ان جانوں کی حیثیت پانچ لاکھ سے زیادہ نہیں. مقدمے قایم کر دِیے گئے ہیں. شرجیل میمن صاحب نی بڑھک لگایی کے تمام مالکان کے نام
ECL میں ڈال دِیے گئے ہیں. حکومتی جماعتوں اور اتحادیوں سمیت تمام رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور حکومت اور اتحادیوں نی سخت بیانات جاری کِیے ہیں. اور نہ جانے کیا کیا. رحمان ملک اور شرجیل میمن صاحب، کیوں نہ مالکوں سمیت ان تمام سیاستدانوں اور اہلکاروں کو بھی ECL میں ڈال دیا جائے جو بلواسطہ یا بلا واسطہ اس اندوہناک واقعا کے ذمدار ہو سکتے ہیں؟ وقت تحریر شازیہ مری صاحبہ کے نیک خیالات بھی کان میں پڑے. موصوفہ کے نزدیک ہمیں شرم انی چاہیے کے ہم صدر اوروزیر اعظم  کے نوٹس لینے کے باوجود حکومت پر تنقید کر رہے ہیں. لوگ ہمارے ملک کے بارے میں کیا سوچینگے، عوام کو خود بھی کچھ کرنا ہو گا ، ہر کام حکومت نہیں کر سکتی وغیرہ وغیرہ. بلکل شازیہ صاحبہ، ہم شرمندہ ہیں ہم بہت شرمندہ ہیں کے آپ لوگوں  جیسے بے حس لوگو کے ہاتھ میں اپنی تقدیر دے دی. یہ ہے حیثیت آپ تمام ووٹرز کی جنہوں  نے ان لوگوں کو منتخب کیا. یہ روز اس عوام کو ان کی حیثیت یاد دلاتے ہیں، سمجھنے والے اگر سمجھیں. خیر چھوڑیے.

عام طور پر مجھے اس تنقید کا شوق نہیں جو صرف تنقید براے تنقید ہو اور جس میں کوئی حل یا حل میں میرا اپنا کردار نا ہو. مگر اس روح فرسا واقعہ نے، جس میں سینکڑوں مزدوروں کی روزی ان کے لئے بھٹی بن گیئ، مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا. میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کے کہیں یہ ہماری اس اجتماعی غفلت کا شاخسانہ تو نہیں جس کے تحت ہم چھوٹی چھوٹی بے قاعدگیوں  کو بے وقعت سمجھ کر کوئی اہمیت نہیں دیتے. میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کے ہر چھوٹی بے قایدگی جب تسلسل سے ہو تو وہ کسی بڑے نقصان کا موجب ضرور ہوتی  ہے. سوال صرف وقت کا ہوتا ہے اس بات کا نہیں کے نقصان ہو گا یا نہیں. ہم ہر چیز کو "فورگرانٹڈ" لینے کے عادی ہو چکے. چاہے وہ چھوٹی موٹی رسک اسسمنٹ ہو یا ہمارے ووٹ. مجھے  یقین ہے کہ ہمارے ملک میں اور ملکوں کی طرح پلاننگ قوانین ضرور موجود ہیں. مگر پچھلی دو تین دہایوں سے ہم نے انہیں صرف کاغذی کارروایی سمجھ کر ردی کی نذر کر دیا. مگر کیا کہیں صاحب، کے ان ٣ دہایوں میں شاید ہی کوئی ایسا قانون ہو،  ہم نے من حیث القوم جس کے بخیے نہ ادھیڑ دِیے ہوں.

ٹریفک قوانین سے لے کر اربوں کے ٹھیکے لینے اور دینے تک، بے قایدگی اور کرپشن ہماری جڑوں میں بیٹھ گیئ ہے. اپنے بنیادی حقوق ہم نے خود ان لوگوں کے ہاتھ گروی رکھ دِیے جنھیں شاید اب ہمارے ووٹ کی بھی ضرورت نہیں. کیوں کے ہماری مرضی کے خلاف ٹھپے لگا کر وہ خود اس فریضے کو  سرانجام دے دیتے ہیں. اس میں شاید ان گھس بیٹھیوں کے قصور سے زیادہ ہمارا اپنا قصور ہے، ہمیں نہ اپنے حقوق کا ادراک ہے نہ ووٹ کی پرواہ. ہم نے خود کو خود ہی بے توقیر کر دیا. سوچیے آج سے بیس سال پہلے ہم نے صرف ذاتی فایدے، نقصان، یا ذاتی وابستگی کی بنیاد پر اپنے ووٹ کو استمال کیا تھا. یا جب ہم نے یہ کہ کر اپنی قسمت ان لٹیرے وحشیوں کے حوالے کر دی تھی کے ووٹ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں. تب کیا ہم میں سے کسی کو بھی یہ احساس تھا کے یہ بظاہر چھوٹی سی غفلت ہمیں اس پستی تک لی جائے گی؟

آج یہ بے بس ٣٠٠ مزدور محنت کش ہمارے سامنے سوالیہ نشان بنے ہوے ہیں. میں فکٹری مالکان کو ان کی موت کا ذمدار ٹھہراؤں یا خود کو جس نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بے وقعت سمجھ کے نذر انداز کیا اور آج منھیسلقوم وہاں کھڑے ہیں جہاں بہت سوں کے لئے زندہ رہنا بایسے زحمت ہو گیا.
 کیا ہم نے سوچا ہے کے آج ہم اس پستی میں جا چکے ہیں جہاں ہمیں لال بتی پر رکنے والا بیوقوف لگتا ہے، قطار میں کھڑا ہونے والا دیوانہ معلوم ہوتا ہے، پولیس کو رشوت نہ دینے والا احمق دکھایی دیتا ہے. بس سٹاپ پر بس روکنے والا امریکا پلٹ نادان، بہتر مستقبل کی بات کرنے والا پاگل، تبدیلی کی بات کرنے والا بھولا بادشاہ ، ووٹ سوچ سمجھ کے استمال کرنے کی تنقید کرنے والا  خلایی مخلوق، اور ہمیں جگانے کی کوشش کرنے والا مجذوب لگتا ہے.

زیادہ پرانی نہیں، کوئی آٹھ نو سال پہلے کی بات ہے، کراچی میں گرین بس چلآیی گیئ. یہ شہریوں کے لئے نعمت سے کم نہ تھی. اچھے اچھے لوگو نے دفتر جانے کے لئے ذاتی گاڑیوں کا ستعمال ترک کر کے
AC  والی بس میں عزت سے سفر کو ترجیح دینا شروع کر دی. میں بھی ان میں سے ایک تھا. یہ بس صرف مقررہ سٹاپ پر رکتی تھی اور ایک خاص حد سے زیادہ مسافر نہیں اٹھاتی تھی. ایک دن ایک صاحب کا اپنا سٹاپ چھوٹ گیا تو انہو نے بس میں طوفان بدتمیزی مچا دیا، اور بس ڈرئیور کو وہ مغللزات بکیں کے ال امان. ڈرئیور بیچارہ صرف اتنا کہ سکا کے صاحب اگلے سٹاپ پر اتر جائے گا، یہ بس سٹاپ کے علاوہ کہیں نہیں رکتی. آپ یقین کریں کے پوری بس اس آدمی کی بے قایدگی کی حمایت پر اتر آیے اور ڈرئیور کو بل آخر مجبورن اصول توڑنا ہی پڑا. میں نے ساتھ بیٹھے مسافر سے کہا کے ہم نے اس سروس کی بد ہالی کا آغاز اپنے ہاتھوں سے کر دیا ہے. یقینن ان صاحب نے مجھے بھی ممی ڈیڈی قسم کا بیوقوف سمجھ کر دل میں خوب مذاق اڑایا ہو گا. اس واقعا کے دو مہینے کے اندر اندر، پہلے بس کا AC بند ہوا، پھر بس نے سٹاپ پر رکنا چھوڑا، اس کے بعد اور لوڈنگ شروع ہوئی اور آج اس سروس کا مزار کراچی کے کس بس ڈپو میں ہے، عوام کو اس کی خبر نہیں.

  یہ ہماری اجتماعی خودکشی کی بہت چھوٹی سی مثال تھی، بڑے بڑے واقعات اور حادثات نے کس چھوٹی بات سے جنم لیا، اب تو شاید ہم میں سے کسی کو یاد بھی نہ ہو.

آج ہر بڑے چھوٹے واقعہ پر ہم خوب روتے ہیں اور جی بھر کے انتظامیہ اور حکومت کو ان کی کرپشن اور نہ اہلی پر صلواتیں سناتے ہیں. یہ پریشانی اور غصّہ اپنی جگا، مگر ہم می سے کتنے لوگو نے یہ سوچا کے خون چوسنے والے لٹیروں کو اپنے اوپر ہم نے خود مسلّط کیا ہے. ہم می سے بیشتر تو ووٹ ڈالتے ہی نہیں ، اور جو ڈالتے ہیں، ان می سے کتنے ہیں جو اپنی ذاتی، نسلی اور لسانی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر ووٹ ڈالتے ہیں؟ یاد رکھے کے یہ ممکن نہیں کے پورا ملک جل رہا ہو، اور آپ بھیسیت ایک فرد یا مخصوص قوم کے خوشحال رہیں. 

یہ منطقی اعتبار سے ممکن نہیں ہے. کبھی سوچا ہے کے ہم کس کس کے ہاتھ کتنی بار لوٹے گئے؟ مارے گئے؟ مگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی.

اس کالم کے توسسط سے صرف اتنا کہنا ہے کے ٢٠١٣ میں جب اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے جاہیں، تو سوچ لیجے گا کےآپکا یہ چھوٹا سا ووٹ اس بات کا عکّاس ہے کے آپ خود کو کس درجے پر رکھتے ہیں. سوچنا ہو گا کے ہمیں یہ پستی اور بے عزتی قبول ہے یا نہیں. اگر ہے تو بیشک وہی کیجیہ جو پچھلے تیس سالوں میں کرتے آیے ہیں. جب ووٹ ڈالنے جین تو ان ٣٠٠ بےبس جانو کو یاد ضرور کر لیجے گا کے چھوٹی چھوٹی بے احتیاتی آگے چل کر بڑے نقصان کا پیش خیمہ ہوتی ہے. میں اتنا جانتا ہوں کے یہ ٣٠٠ افراد یقینن غفلت کی وجہ سے آج لقمہ اجل بن گئے. یقینن کہیں نہ کہیں کسی نے اپنے فرائض سے غفلت برتی. چاہے قوانین کو محظ کاغذی سمجھ کے یا ٣٠٠ افراد کی زندگیوں کی قیمت وصول کر کے. ان بے گناہوں کو یاد رکھیے گا جو مفاہمت کے پردے میں وحشت کی بھینٹ چڑہ گئے. ان بزرگوں، عورتوں اور بچوں کو یاد کر لیجے گا جن کے حصّے میں اس سیٹ اپ کے نتیجے میں صرف رسوایی اور بے  سر او سامانی آی.ان چہروں کو ضرور یاد کر لیجے گا جو اپ کے ووٹ کو آپ کی بے حسی اور بے بسی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے. جب جب مرے دفتر میں فایر الارم ٹیسٹ ہو گا یا فائر ڈرل ہو گی، مرے سامنے مرے یہ ٣٠٠ ہموطن سوالیہ نشان بن کے کھڑے ہونگے. میں ان بے قصوروں کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کروں؟ فکٹری مالکان،
KDA یا متعلقہ اداروں کے بے حس زممداران، ڈھیٹ اور بے غیرت سیاست دان جن کے نزدیک ہماری جان کی قیمت پانچ لاکھ اور دو بیانات سے زیادہ نہیں یا اپنی قوم کے ہاتھ پر جو ذلت پر ذلت اٹھا رہی ہے مگر اپنی طاقت کو پہچان نہیں رہی. بات جو بھی ہو، ہم خود اپنے مجرم ہیں اور میں کم سے کم خود کو اس احساس جرم سے آزاد کرنا چاہتا ہوں. آپکا پتا نہیں .

No comments:

Post a Comment