Monday 24 September 2012

Aam Admi عام آدمی


Aam Admi

By: Taqveem Ahsan Siddiqui

عام آدمی

تقویم احسن صدیقی


ہمارے ہاں سوچ بچار سے آزادی پانے کے لئے آسان اصطلاح "عام آدمی " کا استعمال عام ہو چکا ہے. افراد کے ایسے گروہ کو جو کبھی کبھار سوچنے کی جسارت بھی کر لیتے ہیں "عوام " کا نام دے کر بے خبری کی نیند سلا دیا گیا اور یوں انہیں سوچنے اور خود احتسابی کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا. 

عام آدمی کسے کہتے ہیں؟ جمہور کا اتفاق ہے کے عام آدمی وہ انسان ہے جس کی زندگی روز صبح ٩ بجے شروع ہوتی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر روٹین کا کام کر کے دن تمام ہو جاتا ہے. گھر کا خرچ، بچوں کی تعلیم، ہفتے میں ایک یا دو چھٹی وغیرہ وغیرہ. ان کو مجموعی طور پر ہمارے ہاں "عوام" کا نام دے دیا گیا ہے. یعنی عام افراد کا ایسا گروہ جس کی زندگی میں "بظاھر" کھانا، سونا، تلاش معاش اور اہل خانہ کی دیکھ بھال کے سوا کچھ نہیں. خواص کا کہنا ہے کے ایسا آدمی اپنے ارد گرد کی ںا انصافیوں پر کم دھیان دیتا ہے لہٰذا یہ بھی طے ہے کے چاہے اس کی جان، مال، آل اولاد برباد کر دی جائے، اس سے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا جائے، اس کی سوچ میں کوئی فرق نہیں آے گا. وہ ان خواص کو ہی اپنا خدا بنا کر رکھے گا. ظاہر ہے، عام آدمی ہے، اسے تو صرف روٹی اور چھت کی فکر ہے، اس کا سیاست یا بادشاہ گری سے کیا لینا دینا؟

عام آدمی کی یہ تعریف اتنے تسلسل سے کی گی کے عملن ایک خاص آدمی خود کو "عام" سمجھ کے سوچنے سمجھنے کی 'ذمداری' سے مبرا سمجھنے لگا. مرے خیال میں عام آدمی کی اس تعریف میں سے سوچنے سمجھنے کا لفظ جان بوجھ کر حذف کر دیا گیا تاکے "عوام" کو یہ یقین دلا دیا جائے کے سوچنے سمجھنے کا حق صرف انھیں ہے جن کے ہاتھ اقتدارہے، یا آ سکتا ہے. "عوام" کا کام صرف اپنی روز کی ضروریات کی فکر کرنا اور وقت آنے پر یہ خواص جہاں ووٹ ڈالنے کو کہیں چپ چاپ وہاں ڈال دینا. بلکے اب تو یہ فریضہ بھی خواص خود ہی انجام دے دیتے ہیں. تو جناب عوام کو خواص کے چناؤ کے بچے کچے فرض سے بھی آزادی کا پروانہ مل گیا.

پارلمانی نظام حکومت میں، جس کے ٹھیکیدار، روزانہ کی بنیاد پے عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ووٹر / ٹکس پیر / پیپل کے لئے "عوام" کی اصطلاح میں نے کہیں استعمال ہوتے نہیں دیکھی. جس کامیاب جمہوریت پر بھی نظر دوڑایں وہاں "کامن مین" (عوام کا لفظی انگریزی میں ترجمہ) کے بجاے  کانستتونٹ، ٹکس پیر یا پیپل کے الفاظ سے ہی پالا پڑے گا.  

اس نقطے پر غور کے بعد مجھ پر واضح ہو گیا کے ٦٥ سالوں سے ہمارے خواص کو عوام کہ کر ایک سوچی سمجھی "سکیم" کے تحت سوچنے، سمجھنے، فیصلہ کرنے اور اپنی طاقت کو پہچاننے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے.

 آپ آزما کر دیکھ لیجیے، کسی بھی  جماعت کے اندھے جیالے سے منطقی بحس کر کے تو دیکھیے. آپ لاکھ منطق اور حقائق کے سہارے بحس کو آگے لی کر چلیں، پہلے تو اپ کی منطق کے جواب میں بے سر و پا تاویلیں پیش کی جائینگی پھر جب عقل کے تمام دروازے کھٹکتانے کے بعد کوئی چارہ ںا ہو گا تو آخری جواب یہی ہو گا "ارے یار عام آدمی کو ان چیزوں سے کیا لینا، اسے تو بس روٹی چاہیے، اسے تو بس روٹی مل جائے". لیجیے صاب آپ کی تمام منطق اور حقائق اس ایک جملے کے سامنے بین بجاتے رہ گئے. اب آپ لاکھ جتن کریں، مگر سامنے والا فریق کسی صورت خود کو عام آدمی کی کٹگری سے نکلنے پر تیار ںا ہو گا. 

یہ ہمارا المیہ نہیں تو کیا ہے، کے جس انسان کو قران چلا چلّا کر عام آدمی سے سوچنے سمجھنے والا اور غور کرنے والا خاص آدمی بنانا چاہتا ہے وہ صرف اور صرف اپنی جذباتی وابستگی اور انا کی خاطر عام آدمی کے لبادے میں تذلیل تو قبول کر لے گا مگر سوچنے اور غور کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا. 

یہ عام آدمی روز اپنے "عام" ہونے کے جرم کی سزا پاتا ہے. اسے روز لوٹا جاتا ہے، اس کی تذلیل کی جاتی ہے، اسے مھنگایی کے عذاب تلے کچلا جاتا ہے، اسے رشوت ستانی کے ذریعہ ستایا جاتا ہے، اس کو پانی بجلی سے لے کر گیس اور موبایل فون کی "لوڈ شیڈنگ" کے کے ذریے "ڈرائنگ روم " کی سیر کرایی جاتی ہے. اور اب تو بھتے اور تاوان نام کے نے اوزار اس کی کھال اتار رہے ہیں. مگر آفرین ہے اس عام آدمی پر، کے یہ مرد آہن ان تزلیلی حربوں سے نبرد آزما ہوتا ہے اور سینہ ٹھوک کے پھر اپنے ہی قاتلوں لٹیرو کے  ساتھ  کھڑا ہو جاتا ہے. آخر عام آدمی ہے، اسے تو صرف روٹی اور چھت کی فکر ہے، اس کا سیاست یا بادشاہ گری سے کیا لینا دینا؟ 

اس عام آدمی کے مالک بھی کبھی کبھار آٹھ دس پل بنوا کر، چند فوارے لگوا کے، چوک سجا کے یا پانی کی لائنیں ڈلوا کے اسے خوش کر دیتے ہیں. کوئی اسے اپنے شہر کو پیرس بنانے کے خواب دکھاتا ہے تو کوئی اسے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے. ویسے بھی مالکوں کی اجازت نہیں ہے کے عام آدمی سوچنے سمجھنے میں اپنا وقت ضایع کرے. وہ تو عام آدمی ہے، اس کا سیاست اور بادشاہ گری سے کیا لینا دینا؟ 

جمہور کے لئے لفظ "عوام" کا استعمال جہاں ایک خاص آدمی کو عام بناتا ہے وہیں اس کو لاشعوری طور پر یہ احساس دلاتا ہے کے کسی بھی قسم کی سوچ میں تبدیلی اسے اس رہی سہی رینگتی ہوی زندگی سے بھی دور لے جائے گی. "عوام" کو یہ جتا دیا گیا ہے کے بھییا ہر وہ دن جب تم اپنی عزت نفس یا جان میں سے ایک بھی چیز سہی سلامت بچا کر گھر واپس لی آؤ، تمھارے لئے غنیمت بلکے "بونس" ہے. اور کیوں کے یہ عام آدمی ہے ، اس لئے اس نے اس بات کو من و عن تسلیم کر لیا ہے. ویسے بھی وہ تو عام آدمی ہے، اس کا سیاست اور بادشاہ گری سے کیا لینا دینا؟ 

اکثر یہ بھی سننے میں آیا ہے کے عام آدمی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کے کس کے پیسے کہاں پڑے ہیں، کس نے کس سے کیا "ڈیل" کی، کون ان کی لاشیں گراتا ہے، کون انھیں لوٹتا رہا یا کون کس کبوتر کے ذریہ کونسا خط کہاں پہونچاتا ہے. بات تو ٹھیک ہے، یقینن، یہ عام آدمی کا مسلہ نہیں ہے، عوام جو ٹھہرے. انھیں تو بس روٹی چاہیے قطع نذر اس کے کے ان کی ایک روٹی میں سے کس نی کتنا حصّہ لگایا اور ان کے ہاتھ کیا آیا. ویسے بھی روٹی تو روٹی ہے، عزت کی ملے تو شکر، باسی ٹکڑوں کی صورت میں ملے تو صد شکر. عام آدمی کو اس بات سے واقعی  کوئی لینا دینا نہیں کے اس کو ملنا کیا چاہے تھا اور مل کیا رہا ہے. یہ فیصلہ کرنا تو ویسے بھی مالکوں کا کام ہے. عام آدمی کا کام تو صرف اتنا ہے کے صبح سے شام کرے اور زندگی یوں ہی تمام کرے. ویسے بھی وہ تو عام آدمی ہے، اس کا سیاست اور بادشاہ گری سے کیا لینا دینا؟

عوام میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو بڑی تن دہی سے عام آدمی کو عام آدمی ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں. ان کو روٹی تو ملتی ہے، کیسے مل رہی ہے؟ اس کا سوچنے کا وقت کس کے پاس ہے؟ ویسے بھی تحفظ کا احساس، عزت نفس، قانون کی عمل داری ، رشوت کی روک تھام ، تعلیم، صحت اور انصاف جیسی "خاص" نعمتوں کا وطن عزیز میں کیا کام؟ کہتے یہ بھی یہی ہیں کے سیاست سے ہمارا کیا واسطہ؟ تو یہ اپنے آپ میں خواص بھی عام آدمی کی عوامی تعریف میں ہی اتے ہیں.

نذر یہی اتا ہے کے جمہور کو عوام ہونے کا احساس دلا کر، اس عام آدمی کو اس کے مالکان نی نسلی، لسانی، صوبائی ، ذاتی، مذہبی تفریق کی تنخواہ پر ملازم رخ لیا ہے. جب تک یہ عام آدمی، عوام سے جمہور کا سفر طے نہیں کر لیتا تب تک اس کی عزت نفس اور اس کے بنیادی حقوق کا استحصال اسی طرح ہوتا رہے گا. یہ اسی طرح روز کٹے گا، روز ترسے گا. سوچا جائے تو صرف سوچ کی بنیادی تبدیلی سے عوام اپنے جمہور ہونے کا ثبوت با آسانی دے سکتے ہیں. بس سوچ کو خوف کے پہروں سے آزاد کرنے اور خود پر یقین کی دیر ہے. جمہور وہ ہیں جو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرتے ہیں، اپنے زمداروں کو مالکوں کا درجہ نہیں دیتے، اپنے ووٹ کا فیصلہ ہر قسم کی جذباتی وابستگی سے بلند ہو کر حقائق اور گزشتہ تجربوں کی بنیاد پر کرتے ہیں. 

ویسے بھی یہ عزت نفس کی بات ہے، خود کو عام آدمی قرار دے کر اگر کوئی اپنی زمداریوں اور حقوق سے بری ہونا چاہتا ہے، تو اپنے انجام کا حساب بھی خود لگا لی، زیادہ وقت صرف نہیں ہوگا. روزانہ خبر بننے والو کی فہرست میں خدا ںا خواستہ کل کو آپ یا میں بھی ہو سکتے ہیں. یا پھر آپ بھی "عام" آدمی کہلانے پر مطمعین ہیں جسے صرف روٹی اور چھت کی فکر ہے، سیاست یا بادشاہ گری سے کوئی لینا دینا نہیں.




No comments:

Post a Comment