Friday 3 June 2016

Taqat Ka Safar - Ittefaq, Sharif, Nawaz....... Safdar?


   

طاقت کا سفر - اتفاق، شریف، نواز ....... صفدر؟

تقویم احسن صدیقی

 



میاں صاحب کا آپریشن لندن کے کسی ہسپتال میں خیر سے ہو گیا، اور دعا ہے کے اللہ انھیں جلد از جلد صحتیاب کرے اور وہ بخیریت وطن واپس لوٹ سکیں. میاں صاحب کی بیماری کو لے کر طرح طرح کی چہ مگوئیاں زبان زد عام ہیں، بہر کیف یہ تمام بحث لا حاصل ہے کہ ان کا آپریشن چھوٹا تھا، بڑا تھا یا درمیانہ. تسلی بخش بات یہی ہے کے جو بھی تھا ہو گیا، اور دعا ہے کے میاں صاحب جلد از جلد صحت یاب ہوں



اس صورتِ حال میں ریاست پر نظر ڈالئیے تو ریاستی حکام میں ایک عجیب قسم کی افرا تفری بے یقینی اور ریاستی امور میں انجماد واضح نظر آتا ہے. میاں صاحب کی تشویشناک صحت کو لے کر جہاں بے یقینی کی سی صورت حال نے جنم لیا ، وہیں اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک تحریک سی نظر آتی ہے. اپوزیشن جماعتیں اور عوام تو بہرحال میاں صاحب کی صحت کے حوالے سے اپنی تمام تر نیک خواھشات کے ساتھ احتساب کے نکتے پر متفق اور اٹل ہیں، لیکن اگر حکمران جماعت کی طرف نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہر شخص صورت حال کا اندازہ لگانے اور اس کے مطابق اپنے پتے ترتیب دینے میں مصروف ہے. کہیں چودھری نثار ہیں تو کہیں اسحاق ڈار کی وزیر اعظم کی کرسی کی طرف نظر التفات، کہیں ایاز صادق تو کہیں مریم صفدر کو نظر آتی کرسی، کہیں شہباز شریف ہیں تو کہیں حمزہ شہباز کی نظر جو اقتدار اور جماعت کو شریفوں سے نکل کر نواز اور پھر بالآخر صفدر خاندان کی جھولی میں گرتا دیکھ رہی ہے




پنامہ معاملے کے سامنے آنے کے بعد میاں صاحب بالخصوص ان کی صاحبزادی مریم نواز، جن کا نام تمام بیرون ملک جائیدادوں اور آف شور کمپنیوں کی دستاویز پر مریم صفدر ہے، کی ساکھ کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا. خبر ہے کہ میاں صاحب کے آپریشن کے ایک دن بعد مریم بی بی کی طرف سے تمام چینلز اور چنندہ اینکر پرسنز سے باقاعدہ درخواست کر کر کے انٹرویوز کروائے گئےشاید اس طور اس نقصان کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی گئ


مجھے گزرے بادشاہوں ، فرما نرواؤں کا دَور یاد آ گیا، بلکہ انسانی جبلت ، اقتدار اور طاقت کی بے ثباتی اور ہزاروں سال کی تاریخ سے جھانکتی بے رحمی سامنے آ گئ، جو زمانے اور محلِ وقوع سے بے نیاز ہر دَور میں مسلسل زندہ رہی ہے اور ایک تلخ حقیقت ہے. پاکستان بہر حال بادشاہت نہیں مگر شو مئ قسمت کہ اسے چند دہائیوں سے ایک ریاست کے بجائے سلطنت کے طور پر چلایا جا رہا ہے. اسی تناظر میں، خیال آیا کہ گزرے وقتوں میں جب بادشاہ بیمار ہو جاتا تھا، تو یہی وہ وقت ہوتا تھا جب اندرونی و بیرونی عناصر ممکنہ خلا کو پر کرنے کی دوڑ اور تدبیروں میں لگ جاتے تھے. کیا اولادیں، کیا بھائی ، کیا بہن، اور کیا رشتےدار اور پھر کیا ان کے مصاحب، ہر ایک اپنی پوزیشننگ میں تندہی کے ساتھ مصروف. اور پھر جو کامیاب ہو جاتا ، وہ طاقت کی کرسی پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے اپنے مقابل تمام افراد کی بیخ کنی کرتا ، چاہے وہ سگا بھائی ، بیٹا یا باپ ہی کیوں نہ ہو. تاریخ انسانی ان واقعات سے بھری پڑی ہے. اور موجودہ دور میں بھی اسی پاکستان میں اس کی کئ مثالیں موجود ہیں. کون جانتا ہے آج بھٹو کے بیٹوں اور دوسری بیٹی کی اولادیں کہاں ہیں؟ کون نہیں جانتا کس طرح آج اقتدار عملی طور پر بھٹو سے ہوتا ہوا زرداری خاندان میں داخل ہو چکا ، اور یہی حقیقت ہے.


کس کو یاد ہے کہ آج کا شریف خاندان، گزرے دنوں کا اتفاق خاندان یا میاں خاندان تھا؟ میاں شریف کے بقیہ بھائی کہاں ہیں؟ ان کے ساتھ ان کے اپنے بھائی اور ان کی اولادوں نے کیا کیا؟ طاقت ، اقتداراور پیسہ، بے رحم اور کسی کے دوست نہیں.

نظر یہی آتا ہے کہ اتفاق سے شروع ہوا سفر، شریفوں سے ہوتا نواز تک پہنچا اور اب اس موڑ پر ہے جہاں یہ طے ہونا ہے کہ اس کی اگلی منزل، شہباز ہیں یا صفدر. اس پورے معاملے میں کیپٹن صفدر خاموشی سے حالات کا رخ دیکھ رہے ہیں. کیپٹن صفدر، جو جانتے ہیں کہ اس کھیل میں نواز شریف کی جیت، مریم کی جیت اور مریم کی جیت صفدر خاندان کے طاقت کے سفر کا آغاز ہوگی. قارئین کے لئے شاید یہ ناقابلِ فہم ہو، مگر یاد کیجئے کون سوچ سکتا تھا کہ اقتدار بھٹو خاندان سے نکل کر با آسانی اور غیر محسوس طریقے سے زرداری خاندان میں داخل ہو جائےگا ، اور وہی زرداری جنھیں محترمہ بھی آگے نہیں آنے دیتی تھیں، ایک دن ریاستِ پاکستان کے صدر کے عہدے پر فائز ہونگے؟


ایک بات تو طے ہے، پانامہ معاملے کا شور دبنے والا نہیں، اور نہ ہی عوام اس معاملے پر کسی قسم کا مک مکا برداشت کرنے کے موڈ میں ہیں. لہٰذا میاں صاحب چاہیں بھی تو اس معاملے کو دبا نہیں سکتے، کھینچ ضرور سکتے ہیں، مگر کیا ریاست ایک شخص اور اس کے بچوں کو بچانے کے لئے اس طوالت کی متحمل ہو سکتی ہے؟ یقیناً نہیں. میاں صاحب کی برسوں کی بساط سٹیک پر ہے. اس معاملے نے مریم صاحبہ کی نون لیگ کی سربراہی اور ایوانِ اقتدار میں انٹری کے خواب کو ایک بڑا دھچکہ ضرور لگایا ہے. یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں صاحب اور مریم صاحبہ اتنی آسانی سے اس بساط کو بگڑتا نہیں دیکھ سکتے. مگر کیا کیجئے، جیسا کے عرض کیا ، اقتدار اور طاقت بے ثبات ہیں اور انہیں زیادہ عرصے مرکوز و مقیّد رکھنا تاریخ انسانی میں ثابت نہیں . جس نے ضد پکڑی اس نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا.


نواز لیگ کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ تو کہنا قبل از وقت ہے، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگلا انتخاب اس بات کا فیصلہ ضرور کر دے گا کہ طاقت کا یہ سفر کس طرف مڑتا ہے. اس کا دارو مدار بڑی حد تک نون لیگ کے اگلے الکشن جیتنے یا نہ جیتنے پر ہے، کیونکہ بالفرض، میں پھر کہونگا، "اگر" اگلا الکشن کسی معجزے کے تحت نون لیگ جیت جاتی ہے اور اقتدار میاں صاحب یا مریم صفدر کے ذریعے شہباز کے بجائے نواز خاندان میں ہی رہتا ہے، تو پھر یہ عملاً صفدر خاندان کے ٹیک اوور کا آغاز ہوگا اور آنے والے چند سال خود فیصلہ کر دینگے. مشاہدہ یہی ہے اور گزرے واقعات سے ثابت بھی، کہ میاں صاحب نے اقتدار کی باری لگانے میں زرداری صاحب پر تو اعتبار کر لیا، اور کرتے ہیں ، لیکن اپنے سگے بھائی، اس کی اولاد یا اپنی ہی جماعت کے کسی بھی شخص پر نہیں.


فی الحال تو پنامہ معاملے کو دیکھتےہوئے یہ مشکل ہی نظر آتا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ پنامہ معاملہ کا حل اور مکمل احتساب ہی نون لیگ کو شریف خاندان میں رکھنے کا ضامن ہے. چاہے اس کے لئیے نون لیگ کو اگلے الکشن یا وقتی طور پر ہی سہی اقتدار کی قربانی دینی پڑے. یہ تو رہی نون لیگ اور شریف خاندان کی بات جس کی پلاننگ اور فیصلہ بہرحال انہو نے خود کرنا ہے، جس کے کامیاب ہونے یا نہ ہونے کی کوئی پیشنگوئی نا ممکن ہے.

بالآخر فیصلہ قوم نے کرنا ہے کہ انھیں اس ملک کو عملاً بادشاہت میں بدلنا ہے یا اپنی لوٹی دولت کا حساب لے کر ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہونا ہے. میں یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص، کوئی خاندان، کوئی بھی جماعت ،الغرض کوئی بھی ، ریاست کو باندی بنا کر نہیں رکھ سکتا. ریاست کا اپنا سفر ہے، جو طے ہونا ہے اور جو اسکے راستے میں آئیگا، وہ تاریخ کے بے رحم صفحات پر مجرم ٹھہرے گا اور معدوم ہوگا.