Thursday 30 August 2012

Mama Mooda aur Kaka Syana




Mama Mooda aur Kaaka Syaana                   ماما مودا اور کاکا سیانا  


By: Taqveem Ahsan Siddiqui                                                               تقویم احسن صدیقی




ماما مودا بڑا پریشان تھا. جیب پہلے ہی خالی تھی، پھر دن بدن خراب ہوتے حالات نے اس کی کمر توڑ دی تھی.ایک روز راستے میں کاکا سیانا مل گیا. کاکا سیانا بہت سیانا تھا. پورے قصبے میں واحد انسان تھا جس نے انٹر تک شہر کے کالج میں تعلیم حاصل کی تھی. کاکے نے مودےسے پریشانی کی وجہ پوچھی تو مودے نے سارا ماجرا کہ دیا. کاکے نے اسے اپنے گھر آنے کا مشورہ دیا اور آگے بڑھ گیا. مودے نےسوچا آج تو مرے بھاگ کھل گئے. ورنہ کاکے کا کام تو صرف قصبے والو کو ان کی جہالت پر کوسنے اور اپنی خرابی حالات کا ذمدار ٹھہرانے کے سوا کچھ نہ تھا. 

دو دن بعد الکشن تھے، مودا سیدھا کاکے سیانے کے گھر پہنچا اور مشورہ مانگا. کہا، کاکا آج میں بڑا پریشان ہوں، مجھے یہ بتاؤ کے میں کس کو ووٹ ڈالوں؟ انقلابی خان تو الکشن لڑ نہیں رہا، رہ گئے بہت شریف اور مظلوم ولی زرداری ، تو مرا ان پر دل نہیں مانتا. کاکے نے بغور مودے کا جایزہ لیا، اور کہا، بات تو تری ٹھیک ہے، انقلابی تو ویسے بھی الکشن جیتنے والا نہیں تھا، تو اس کی فکر چھوڑ. مجھے لگتا ہے کے تجھے بہت شریف یا مظلوم ولی میں سے کسی کو ووٹ ڈال دینا چاہیے. مودے نی حیران ہو کر پوچھا، کاکے تو نے تو کہا تھا کے یہ چور ہیں، سارا بیڑا غرق انہو نے ہی کیا ہے؟ اب انہی کو ووٹ ڈالنے کے لئے کہ رہا ہے؟ کاکا سیانا سرخ ہو کر بولا، "یہ سیانو کی باتیں ہیں، تو نہیں سمجھے گا ". مودے نے سوال کیا پھر میں کیا کروں؟ کاکا بولا "بس ویکھی جا". مودا خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا اور بے دلی سے ووٹ ڈال آیا.

دن گزرتے گئے اور مودے کے حالات بد سے بد تر ہوتے گئے، کمر توڑ مہنگائی اوپر سے گھنٹوں کی لوڈ شڈنگ، مودا اب کم کم ہی بولتا تھا اور اچھے دنوں کو یاد کرتا تھا. وہ بہت ناراض تھا، بہت شریف اور مظلوم ولی نے اس کی زندگی کو بد سے بد تر بنا دیا تھا. کاکا سیانا بھی بس هوایی باتیں کرنے لگا تھا' اور واپس قصبے والوں کو ان کی بیوقوفی اور ناعاقبت اندیشی پر طعنہ تشنے پر اتر آیا تھا. مودا انقلابی خان سے بھی ناراض تھا کیوں کے اس نے آگے بڑھ کے کچھ نہیں کیا تھا، اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا، کیونکہ کاکے سیانے نے اسے یہی بتایا تھا.

پھر ایک دن خبر ملی کے انقلابی خان نی بہت بڑا جلسہ کر دیا ہے، اور بہت شریف اور مظلوم ولی پریشان ہو گئے ہیں. مودا خوش خوش کاکے کے پاس گیا اور اس خوشخبری پر اس کا مشورہ مانگا. کاکے سیانے نے نہایت بے رخی سے اس کو دیکھا اور کہا، ابھی تو جلسہ ہی ہوا ہے، الکشن تو اب بھی نہیں جیت سکتا. مودے نی پوچھا پھر میں کیا کروں؟ کاکے نی جواب دیا "بس ویکھی جا".

مودا پھر خاموش ہو گیا. پھر مزید خبریں آیین کے اب انقلابی خان طوفان بن گیا ہے اور الکشن جیت جائے گا. مودے نی پھر سیانے سے اس کے خیالات پوچھے. سیانے نی کہا " الکشن تو شاید جیت جائے، مگر بندہ تو کوئی ہے نہیں اس کے پاس. سارا قصبہ تو آج تک نام پر ووٹ ڈالتا آیا ہے. انقلابی آٹھ دس سیٹیں لے لے گا. مودا بولا پھر میں کیا کروں؟ سیانا پھر بولا "بس ویکھی جا".

پھر یکے بعد دیگرے مزید خبریں آنے لگیں اور مودے کو یقین ہو گیا کے اب تو انقلابی خان جیت ہی جائے گا. اس نی سیانے سے تبصرہ مانگا، سیانا بولا، جیت تو جائے گا مگر اس نی یہ تو بتایا نہیں کے جیتنے کے بعد کرے گا کیا؟ مودا تھوڑا الجھا، پھر تھک کر پوچھا ٹھیک ہے پھر میں کیا کروں؟ سیانا بولا " بس ویکھی جا".

پھر ایکدن  مودے کو خبر ملی کے اب انقلابی نے یہ بھی بتا دیہ ہے کے وہ الکشن جیتنے کے بعد کیا کرے گا اور کیسے کرے گا. مودا آج بڑا خوش تھا، اسے اس کے تمام اندیشوں کا جواب مل گیا تھا. اس نی سوچا سب سے پہلے یہ خوشخبری کاکے سیانے کو سنایی جائے. کاکا سیانا تو جیسے انتظار میں بیٹھا تھا، مودے کی بات سنتے ہی بولا، "تیری بات تو ٹھیک ہے مگر مجھے لگتا ہے کے یہ ہو نہیں سکتا". مودے نی پوچھا کیوں؟ کاکا کہنے لگا "آج تک ہوا ہی نہیں ". مودا بولا، "تو یہی تو تو نے کہا تھا کے کچھ ایسا ہونا چاہیے جو آج تک نہیں ہوا". کاکا بولا "ہاں مگر یہ ہو نہیں سکتا، پھر انقلابی کے پاس سب کچھ ہے مگر میں کیسے مان لوں کے یہ ہو سکتا ہے، بہت شریف اور مظلوم ولی زرداری کچھ نہیں کرنے دیںگے". مودا بولا "مگر وہ تو الکشن ہار جاینگے ؟". کاکا بولا "ہاں مگر یہ ہو نہیں سکتا ".  مودا بولا "مگر تم تو کہتے تھے کے سب چور ہیں، انقلابی جیت نہیں سکتا، انقلابی کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ. مگر اب تو سب ٹھیک لگتا ہے. کاکا بولا "ہاں مگر، میں کہتا ہوں کے انقلابی بھی کچھ نہیں کرے گا". مودا بولا "مگر انقلابی ایسا نہیں ہے، اور اب تو اس نے تمہاری ساری شرطیں پوری کر دیں ہیں. سیانا بولا " ہاں مگر یہ تو بتاؤ آج تک انقلابی جیتا ہے؟. جو وہ کہ رہا ہے وہ ملک میں ہو نہیں سکتا، بلکے میں تو اب بھی یہ کہتا ہوں انقلابی جیت ہی نہیں سکتا".

مودا عجیب مخمصے میں تھا، کاکا سیانا روز ایک نیئی بات کر کے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیتا تھا. مودے نے کہا " تمہارا ہر اندیشہ درست، تمھارے ہر سوال کا جواب آج سامنے ہے، تمہاری ہر بات غلط ہو گیی، پھر بھی تم کہتے ہو یہ کچھ نہیں کر سکتا؟، یہ کہاں کی منطق ہے؟". کاکا سیانا مسکرا کے بولا "یہ سیانو کی باتیں ہیں، تو نہیں سمجھے گا".  مودا جھنجھلا کر بولا "تو اب میں کیا کروں؟". سیانا پھر بولا "بس ویکھی جا". یہ کہ کر کاکا سیانا چادر میں منہ لپیٹ کر سو گیا. اور مودا بھاری قدموں سے اپنے گھر کو چلا.

ماما مودا آج بہت پریشان تھا. اسے رہ رہ کے کاکے کی باتیں یاد آ رہیں تھیں اور وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کے کس بات پر عمل کرے، کاکے کی کس بات کو ٹھیک سمجھے؟ کاکے کی باتوں نے اسے الجھن میں ڈال دیا تھا. وہ کبھی انقلابی خان کے بارے میں سوچتا، تو کبھی بہت شریف اور مظلوم ولی زرداری کے بارے میں. تنگ آ کر اس نی کاکے سیانے کی دی ہوئی رسی کو پنکھے سے لٹکایا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا.


2 comments: