Monday 1 October 2012

Tajzye, Tehreek e Insaf Aur Darbari


Tajzyeh, Tehreek e Insaf aur Darbari

By: Taqveem Ahsan Siddiqui

 تجزیے، تحریک انصاف اور درباری

تقویم احسن صدیقی



زراع ابلاغ کے بارے میں مشہور ہے کے اس میں اگر جھوٹ تسلسل سے بولا جائے، غیر منطقی بات کو منطق پر اگر مسلسل فوقیت دی جائے تو ایک وقت آتا ہے جب جھوٹ سچ بن جاتا ہے اور منطق منوں مٹی تلے کہیں دب جاتی ہے. ایسی باتوں کا ایک نقصان نام نہاد تجزیہ نگاروں کو، خود فریبی کی شکل میں بھی ہوتا ہے. ایسے لوگ اپنی سوچ سے مختلف نتائج آنے پر خامخوا حیران ہوتے ہیں اور ان کی وجوہات اندرونی و بیرونی سازشوں اور اجنسیوں کی کرامات میں ڈھونڈتے ہیں. اس میں کچھ ہاتھ خود کی گزشتہ کارگزاری کا بھی ہوتا ہے. جبکے حقیقت یہ ہے کے زمینی حقائق سے لاکھ نظریں چرائی جائیں، وہ خود کو منوا کر رہتے ہیں، جلد یا بدیر

فلوقت مرے زیر نظر ایک کالم ہے جس میں ایک جیالے قسم کے لکھاری صاحب نے اپنی پوری قوت یہ باور کرانے پر لگا دی ہے کے آنے والے انتخابات میں تحریک ا انصاف نواز شریف کی جماعت کو بھرپور ڈنٹ لگایے گی. چلیے صاب یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے مگر آگے چل کر موصوف اپنی تمام فکری قوّت مجتمع کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کے کپتان کی جماعت اگلا انتخابی میچ ہار جائے گی ہاں مگر مسلم لیگ کا ووٹ بری طرح متاثر کرے گی. مسلم لیگ کا ووٹ بنک خراب کر کے بھی تحریک انصاف کیسے ہار جائے گی، اور کیا صرف مسلم لیگ کا ووٹر ہی کٹ کے کپتان کی جماعت کو ووٹ دے گا، ان سوالو کا جواب شاید لکھاری صاحب کے پاس نہیں تھا یا جن بوجھ کر حذف کر دیا. یا شاید پس منظر میں یہ خواہش طفلانہ مچل رہی ہو کے پی پی پی اس "سچویشن" کا فائدہ اٹھا کر میدان مار لیگی. اور اس کی حمایت میں موصوف، علی موسا گیلانی کا انتخاب پیش کرتے ہیں. دور کی کوڑی ہے صاب، شاید مرے اور آپ کی سمجھ میں نہ اے. مگر انہوں نی تو بات کر دی، اب آپ تخیل کے گھوڑے دوڑاتے رہیں، اگر کچ سمجھ آے تو مجھ نا عقل کو بھی سمجھا دیں

جہاں تک اس ناچیز کی عقل کام کرتی ہے، ٢٠٠٨ کے الکشن کا ٹرن اوٹ تقریبن تنتالیس فیصد سے کچھ زیادہ تھا. سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق چالیس فیصد ووٹ بوگس تھا. اگر یہ چالیس فیصد کا تخمینہ ٹوٹل کاسٹ کیۓ گئے ووٹ پر لگایا جائے تو اصل ٹرن اوٹ کوئی پچیس فیصد بنتا ہے. اب اس پچیس فیصد کے نتیجے میں قائم ہوئی جمہوریت پر بحس کسی اور روز کے لئے چھوڑتے ہیں

فلحال تو یہ نظر آ رہا ہے کے میاں صاحب پنجاب میں بلا شرکت غیرے ٢٠٠٨ کا انتخاب لڑنے گئے. یا یوں کہیہ کے اپوزیشن کی واحد پارٹی  تھی جس نی انتخاب لڑا. اس اکیلی ریس میں میاں صاحب کی جماعت نی سرسٹھ سیٹوں کا تیر مارا. ٣ آزاد امیدواروں اور بیس مخصوص نشستوں کے ساتھ ٩٠ سیٹیں ہی لے  پاے. وہ بھی صرف پنجاب میں. تو ظاہر یہ ہوا کے میاں صاحب کی قوت کم و بیش اتنی ہی تھی

اپ پی پی پی پر نظر ڈالیں تو ٢٠٠٨ کی زخم خوردہ پی پی پی اور آج کی مقتدر پی پی پی کی مقبولیت میں واضح فرق نظر آتا ہے. ٢٠٠٨ کے الکشن میں جب بی بی کا زخم تازہ تھا، اور میاں صاحب بھی زرداری صاحب کے واری جا رہے تھے،
پی پی پی نی جنرل نشستوں میں سے صرف ٩١ سیٹیں حاصل کیں. اس کے بعد سات آزاد امیدواروں اور تقریبن ستائیس مخصوص نشستوں کے کندھے پر سوار ہو کے ١٢٥ سیٹیں ہی جوڑ  پائی. ٢٠٠٨ کی پی پی پی اور آج کی زرداری لیگ میں زمین آسمان کا فرق ہے. بی بی کے قتل سے پڑنے والا ہمدردی کا ووٹ بھی ختم ہو گیا. اس کے علاوہ کارکردگی سب کے سامنے ہی ہے، کوئی انڈیکیٹر ان کے حق میں نہیں ہے. عوام بیزار ہو چکے، جس کا اشارہ وہ تمام سروے بھی دیتے ہیں جنہوں نے ٢٠٠٨ میں پی پی پی کو پچاس فیصد مقبولیت کے ساتھ سر فہرست قرار دیا تھا، (کسی حد تک ٹھیک بھی تھا، الکشن میں اس کی تصدیق بھی ہو گئی). وہی سروے آج پی پی پی کو پاکستان کی سب سے غیر مقبول جماعت بتا رہے ہیں. آصف زرداری صاحب نی پچاس فیصد مقبولیت کو ٹھڈے مار مار کے چودہ فیصد تک پہنچا دیا. جیسے جیسے انتخاب قریب آ رہا ہے پی پی پی زوال کی نچلی ترین حدوں کو چھو رہی ہے

اب ذرا این اے ١٥١ کے بائی الکشن پر بھی نظر ڈال ہی لیں. ضمنی انتخاب ویسے تو کسی طور بھی عام انتخابات کا پیمانہ نہیں. مشرف صاحب کی قاف لیگ ٢٠٠٨ سے پہلے کے تمام ضمنی انتخابات جیتی تھی. ٢٠٠٨ کا حشر سب کے سامنے ہے.
اب سرسری نظر این اے ١٥١ پر ڈالیں تو جس حلقے سے موسیٰ گیلانی کے ابو جان پچھتر ہزار کے قریب ووٹ لے کے جیتے تھے وہاں صاحبزادے نے تمام حکومتی مشینری استمعال کر کے بھی چونسٹھ ہزار ووٹ ہی لئے. اس سے بھی اہم بات کے کوئی تیس ہزار ووٹوں کا فرق صرف ساڑھے تین ہزار پر آگیا. یعنی ایک آزاد امیدوار نے ساٹھ ہزار سے کچھ اوپر ووٹ لیے. ووٹر ٹرن آوٹ بھی آدھے سے کم تھا.
اب اس ضمنی انتخاب پر کیا بحس کی جائے. سمجھنے والے نوشتہ دیوار خود پڑھ سکتے ہیں.

ہمارے درباری قسم کے اور جیالے نقادوں کو اب یہ کون بتاۓ کے کپتان کی طاقت نواز شریف یا پی پی پی کا پرانا ووٹر ہرگز نہیں ہے. اس کی اصل طاقت تو وہ تین کروڑ نوے لاکھ ووٹر ہے جو نیا رجسٹر ہوا ہے. اس میں سے ٣ کروڑ وہ ووٹر ہے جس کی عمر اٹھارہ سے پینتیس سال کے درمیان ہے اور وہ پہلی بار ووٹ ڈالے گا. پھر وو عوام بھی ہے جو بد دلی کی وجہ سے آج تک انتخابی عمل سے دور رہی. یہ کل ووٹوں کا تقریبن چھے کروڑ بنتا ہے.

مرکز ہو یا کوئی بھی صوبہ، اسمبلیوں پر قابض ٹولہ کسی ایک کو بھی تو نہیں چلا سکا. یہ جمہوریت کا تسلسل، سترویں اٹھارویں انیس بیس تیس ترمیمیں، میو ہسپتال کے "دلیرانہ " دورے، مفاہمتی سیاست وغیرہ کے بے معنی ڈھکوسلے ذرا روز مرنے اور کٹنے والی عوام، مہنگائی، بجلی پانی گیس موبائل فون کی لوڈ شڈنگ کے ذریے ڈرائنگ روم کی سر کرتے مصیبت زدہ لوگ، مفاہمت کے نام پر  بنیادی حقوق سے محروم عوام کو سنائیے اور دیکھیے کتنی "داد و تحسین" کے ساتھ آپ کا "استقبال" ہوتا ہے. یہ تباہ حال عوام اس موجودہ تماشے سے کتنے خوش ہیں، یہ جاننے کے لئے کسی مہارت یا سروے کی ضرورت نہیں. تخت لاہور کے لئے تو لاہور ہی پورا پنجاب ہے. وہاں بھی بازی پلٹنے کو ہے، باقی پنجاب کا تو ذکر ہی کیا.
اب اس تناظر میں کوئی ہمیں یہ سمجھاے کے میاں صاحب کا ووٹ تقسیم ہو گا اور فائدہ کسی تیسرے کو ہوگا، تو بھائی تمام ذہنی صلاحیتیں صرف کر کے بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی. جس کے سمجھ آتی ہو وہ  کسی "ٹھوس" ثبوت کے سہارے قوم کو سمجھاۓ، خامخوا گمراہ کرنے کی کوشش صرف آپ کی ذہنی صلاحیت اور نیت پر شکوک ہی پیدا کرے گی اور کچھ نہیں .
  
عوام کو بھی یہ سوچنا ہوگا کے کیا انھیں سطحی تجزیوں اور "سیانو" کی باتوں کے ذریے اپنے عقل و فہم کا مزاق اڑانا منظور ہے؟ یہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا بھی چاہتے ہیں یا واقعی ان کی موت ہو چکی ہے. عوام کی کھال اتار کر انہی کے ووٹوں کا ڈھٹائی سے ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے الفاظ جوتے بن کے منہ پے پڑتے محسوس ہوتے ہیں یا نہیں ؟ کیا یہ درباری اور جیالے قسم کے نقّاد آپ کو بتائینگے کے آپ کو کیا کرنا ہے؟ جب آپ کی سوچ اور فہم کا مزاق یہ کہ کر اڑایا جاتا ہے کے "کچھ بھی ہو ووٹ انہو نے اپنے "مالکوں" کو ہی دینا ہے " تو اندر ہی اندر خود کی تذلیل محسوس نہیں ہوتی؟ اگر واقعی ہم چند سڑکوں ، پلوں ، لپ ٹاپ ، ہزار روپے کی انکم سپورٹ،  اور آئینی ترمیموں پر پگھل جانے والی قوم ہیں ، تو پھر ہمارا انجام نوشتہ دیوار ہے. 

باقی تمام درباریوں کی خدمت میں عرض ہے کے اپنی اپنی جماعتوں کی فکر کریں اور دوسری جماعتوں کا غم ان پر ہی چھوڑ دیں. یہ ایلکتبلس اور "پکی سیٹوں " کی سیاست آپ کو اور آپ کے مالکوں کو ہی مبارک ہو. جب انتخاب کے وقت یہ نوجوان اٹھیںگے تو کس کس کی ضمانتیں ضبط ہونگی، یہ وقت بتاۓ گا.

 مضحکہ خیز بات یہ ہے کے جن سروے کو یہ درباری پہلے نہیں مانتے تھے، خان کی پارٹی کو لگنے والے ذرا سے ڈینٹ پر چلانگے لگا رہے ہیں. خان نے پہلے بھی ان کو تسلیم کہ تھا اور اب بھی کرتا ہے. تمام نقادوں کو  بس اتنا یاد رہے کے جب عام انتخاب سے پہلے کوئی سروے اے تو یاد سے اس کو بھی اسی طرح مان لیں اور میڈیا میں لائیں. کپتان کی کامیابی کے ثبوت کے لئے دیدہ وروں کے لئے اتنا کافی ہے کے سندھ سے لے کر خیبر پختونخوا تک، اسمبلی میں موجود تمام جماعتیں بشمول اپنے درباری نققادوں کے تحریک انصاف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہیں. ویسے بھی جن کے نزدیک کامیاب سیاست کا مطلب لوٹ مار، چور بازاری، اقتدار اور پیسے کی بندر بانٹ کے ذریے اقتدار کو دوام بخشنا ہو، جو مکروہ جوڑ توڑ اور عوام کے خون سے ہاتھ رنگ کے خود کو بچانے والوں کی شرمناک درندگی پر انھیں "کامیاب سیاست دان" ہونے کا سرٹیفکیٹ دے کر شاباش کی تالیاں بجاتے ہوں، ان کے منہ اور قلم سے اصول اور اصولی سیاست کی باتیں انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہیں. ویسے بھی ایسے لوگوں سے اصول پرستی اور اصولی سیاست پر تنقید کے علاوہ اور کیا امید کی جا سکتی ہے.  ذرا روایتی عینک اتار کے موجودہ حالات سے بیزار نوجوانو کے غصّے کا بھی ادراک کر لیں. ان کا خون رواں ہے،  یہ ایک فیصلہ کر بیٹھے ہیں اور جب یہ کچھ ٹھان لیتے ہیں تو تمام جوڑ توڑ، تدبیریں، حساب کتاب اور تجزیے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں.

3 comments:

  1. Loved your narration. Keep up the good work.
    Wanna include this in our new blog series? Contact us at @PTI_FATA on twitter

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thanks for the comments... All yours , Please include in the blog Series..

      Delete