Tuesday 18 November 2014

Marsoon Marsoon



مر سوں مرسوں



تقویم احسن صدیقی




موت ، ننگ ، بھوک، پیاس، جہالت، ڈاکو راج، غنڈہ گردی، بھتہ خوری، قبضہ، پولیس گیری وہ چند بھیانک حقیقتیں ہیں جو سندھ کے عوام کی عمومی حالت بیان کرنے کے لیے کافی ہیں. صرف ضلع تھرپارکر میں امسال پانچ سو کے قریب سسکتے انسان لقمہ اجل بن چکے. اور یہ پانچ سو تو وہ ہیں جن کی خبر کسی طور باہر آ گیی ، پرائویٹ کلینک اور دور دراز گوٹھہ اس کے علاوہ ہیں جن کی کوئی گنتی نہیں.صرف گزشتہ اننچاس دنو میں ایک سو ایک بچے تھر میں لقمہ اجل بن چکے. ضلع تھرپارکر این جی اوز کی دکان میں تبدیل ہو چکا. انسانیت سسک رہی ہے لیکن سندھ کی ٹھیکیداری کا دعویٰ کرنے والی یہ باپ بیٹے کی جوڑی بیرون ملک پاکستانیوں کے ہاتھو اپنی عزت افزائی کروا کر بھی سیر سپاٹوں اور مسخریوں میں مصروف ہے 
.

There are Over six Thousand Ghost Schools in Sindh
تعلیم کا یہ حال کے صوبے میں کم از کم چھہ ہزار گھوسٹ سکول ہیں جہاں یا تو الو بولتے ہیں یا وڈیرے کی اوطاق کے طور پر استعمال ہوتے ہیں. اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سندھ کے دونوں ٹھیکیدارو نے نوچ نوچ کر کھانا شروع کر دیا ہے.  چالیس ہزار سے زاید اساتذہ غایب ہیں، جن میں سے بیشتر بیرون ملک مقیم ہیں اور تنخواہ لے رہے ہیں. اندروں سندھ کا تو کیا کہنا صرف کراچی جیسے شہر میں ہی سو کے قریب گھوسٹ اسکول موجود ہیں. ٹھٹھہ جو پرانی تہذیب میں کبھی مرکزی علم کدہ تھا، پچھلے چند سالوں میں سات سو انتیس سکولوں سے ہاتھ دھو بیٹھا جن میں ڈیڑھ سو سے زاید گھوسٹ سکول تھے










More than 400 sham appointments in KU and over 200 illegal up-gradations
کراچی یونیورسٹی میری اپنی مادر علمی ہے. اس کے وسائل کو جس طرح دونو ہاتھو سے لوٹا جا رہا ہے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے. اس میں سندھ کے شہری اور دیہی دونو ٹھیکیدار شامل ہیں. صرف کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ چند سالوں کے دوران چار سو سے زیادہ غیر ضروری اور غیر قانونی بھرتیاں کی گیئں. اس کے علاوہ دو سو سے زاید "اپگرڈیشن " کے کیسز ہیں جن میں اپنے منظور نظر اور پارٹی کارکنان کو جعلی ڈپلوموں پر چھٹے ساتویں اسکیل میں کمپیوٹر آپریٹر بھرتی کیا جاتا ہے اور پھر چالیس پچاس ایسی بھرتیاں ہونے کے بعد انتہائی مکّاری سے اس پوسٹ کا گریڈ بڑھا کر پندھرواں سولہواں کر دیا جاتا ہے. ہائر ایجوکیشن کمیشن کی گرانٹ ویسے ہی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے یونیورسٹی کے وسائل پر یہ چھہ سو سے زائد غیر ضروری غیر قانونی بھرتیاں انتہائی خوفناک اور مجرمانہ بوجه ہے. طریقہ واردات یہ کے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود یونیورسٹی کا چانسلرحاضر سروس پروفیسر کے بجاے ریٹائرڈ پروفیسر اپاینٹ کیا جاتا ہے جس کے ذریے من مانی کرنا آسان ہو جاتا ہے. اس پر تفصیل کبھی اورصحیح  .


Picture is a Million words
اور پھر پی پی اور پی کے متوالوں سندھ کے ٹھیکیداروں کی بے حسی. وزیر اعلیٰ کے نام پر جو بے ہوش سی چیز سندھ پر مسلط ہے، ان سے کچی شراب پی کر زندہ و جاوید ہونے کے ٹوٹکے سنیے ، بیہودہ قسم کی تاویلیں سنیے اور اپنا سر دھنیے. شرجیل میمن صاحب فرماتے ہیں روز پاکستان میں لوگ مرتے ہیں تھر میں دو لوگ مر گئے تو واویلہ کس بات کا. میری سمجھ سے باہر ہے کے ان بے حس لوگوں کا کیا کریں. ذرا کھڑکی کھول کر دیکھئے صاحب، مٹھی تھرپارکر اور سندھ کے دیگر علاقے زیادہ دور نہیں. صرف کراچی میں چھہ ہزار سے زاید ٹارگٹ کلنگز ہو چکیں، انسانیت سسک رہی ہے اندروں سندھ، کبھی بھوک کے آگے کبھی آپ جیسے بے حس ٹھیکیداروں کے آگے. زندہ ہے تو صرف بھٹو ، وہ بھی آپ کے نعروں میں .

گدھ کی طرح لاشوں پر جینے والوں نے اس عظیم خطے کے لوگو کو سواے بھوک، ننگ، کھلی چھت ، بیماری، افلاس، خوف اور جہالت کے کچھ نہیں دیا. کسب کے لئے نسب بدلنے والے بےحس ٹولے کے محلات کی فہرست ہے کے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے. گلہ پھاڑ پھاڑ کر چلانے سے نہ جھوٹ سچ بنتا ہے نہ گیدڑ لیڈر بنتا ہے 
.

ہسپتال خستہ حال اور گھوسٹ بھرتیوں سے بھرے پڑے ہیں. کراچی سمیت پورے سندھ میں جعلی سندوں پر کئی افراد بیک وقت ایک سے زیادہ جگا بھرتی ہیں. کوئی ہسپتال میں بھرتی ہو کر کسی سرکاری ادارے میں مالی ہے، کہیں پرائمری سکول ٹیچر تو کہیں نائب قاصد. حاضری کہیں بھی نہیں. غریب مظلوم عوام ہسپتالوں میں جعلی دواؤں اور ناکافی بلکہ خستہ ترین حالات میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں. گشتہ کئی دہایوں کی تاریخ میں سندھ میں پولیو کیسز آسمان سے باتیں کر رہے ہیں. گھوسٹ ڈاکٹروں کی ایک لمبی فہرست ہے


نام نہاد پروگریسو جماعت کا یہ حال ہے کہ ان کی مرکزی رہنما اور بدقسمتی سے سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر جگہ جگہ مذہبی منافرت پھیلاتی نظر اتی ہیں.اقلیتوں کی صورت حال نہ گفتہ با.

بھٹو کی جماعت کا آج یہ حشر ہے کے سکڑ کے سندھ کے چند دیہی علاقوں تک محدود ہو کر رہ گی ہے اور اس کی حیثیت ایک صوبے کی جماعت سے زیادہ کچھ نہیں.نہ صحت ، نہ تعلیم نہ تحفظ نہ امن و امان، صرف آپسی گٹھ جوڑ اور عوام کا استحصال. سندھ کے مجبور عوام بھٹو سے عقیدت کی قیمت اسی بھٹو کے نام لیوا دھاری داروں  کو ادا کر رہے ہیں.  وہ بھی شاید صرف اس لئے کے آج تک انہیں کوئی للکارنے والا آیا ہی نہیں.بندر بانٹ کا یہ عالم ہے کے ایک نے پنجاب پر قبضہ کر لیا ، ایک نے سندھ پر اور مزید ظلم ایک جماعت دیہی سندھ کی ٹھیکیدار بن بیٹھی اور ایک شہری. شہری علاقے گینگ وار اور لینڈ مافیا کی نظر ہو گئے، اور دیہی بھوک افلاس، بیماری، جہالت اور ڈاکو راج کی 
.

ان حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کے سندھ کے پسے ہوے لوگوں کے لئے کوئی متبادل سامنے آتا جو پاکستان کے وسائل پر قابض مسائل کی جڑ سٹیٹس کو کی نمائندہ جماعتوں کے آپسی معاہدوں اور مفاہمتوں کے ہوتے ہوۓ ممکن ہی نہیں تھا. تحریک انصاف سے آپ لاکھ اختلاف کریں ، مگر یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ اس نے کئی دہایوں کی   اس بندر بانٹ کو توڑنے کی بات کی ہے اور تمام صوبوں میں مقبول ایک قومی جماعت کے طور پر سامنے آئ ہے. آج کپتان کی اس جماعت نے سندھ کا رخ کیا ہے اور سندھ کے ٹھیکیداروں کے قلب میں طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ٹھانی ہے. وہ کامیاب ہوگا یا نہیں، وہ تو اکیس نومبر کو پتا چل ہی جاےگا مگر اس اعلان کے بعد پینترے بازی، ٹھنڈے مزاج، چالاکی شاطری کے لئے شہرت یافتہ زرداری صاحب اور ان کی جماعت کے سرکردہ لیڈران کی بدحواسی قابل دید ہے.
21st November Larkana Jalsa can be a Game changer in Sindh
خبریں ہیں کے وہاں لوگو کو دھمکایا جا رہا ہے، جلسہ گاہ کے لئے ٹرانسپورٹ اور محل وقوع کے لحاظ سے لاڑکانہ کے نسبتاً دشوار علاقے کی اجازت دی گئی ہے. بہرحال جلسہ تو ہونے جا رہا ہے اور بحیثیت پاکستانی مجھے خوشی ہے کہ یہ سندھ کی سیاست میں تاری جمود کو توڑنے کی طرف پہلا قدم ہے. ان بے حس لوگوں نے سندھ کا جو حال کیا ہے ہوش محمد شیدی شہید کی روح ان شعبدے بازوں کے منہ سے مرسوں مرسوں سن کر تڑپتی ہوگی.  جس بے دردی کے ساتھ سندھ کے لوگوں کا استحصال کیا گیا اب وقت ا گیا ہے کے بھٹو کا کفن بیچنے والوں، زبان رنگ نسل اور مذہب کے بیوپاریوں کی رہی سہی دکان بھی ٹھکانے لگے.قطع نظر اسکے کہ بھٹو سے لوگوں کا رومانس اب بھی ہے یا نہیں ،باپ بیٹے کےٹولے نے بچی کچی پیپلز پارٹی کو بلاول ہاؤس میں دفن کر دیا ہے
 

.

No comments:

Post a Comment