Wednesday 23 October 2019

Do(aw)n Kaun?

ڈان:

جمشید محمود نامی ایک صف اول کا ڈائریکٹر ہے ۔۔ یہ “جامی” کے نام سے مشہور ہے ۔۔ بہت سے دوست اب پہچان گۓ ہونگے کہ کس کی بات ہو رہی ہے ۔۔ شوبز کے بڑے بڑے ایوارڈ یافتہ فلم میوزک وڈیوز ایڈ فلمز وغیرہ وغیرہ میں ایک بڑا نام۔۔
اب سے دو تین دن پہلے، اس نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ سے ٹویٹ کیا اور اپنے اوپر گزرنے والی داستان سنائی۔ “می ٹو” تحریک سے جڑی ہوئی۔۔ اس کے مطابق، آج سے ۱۳ برس قبل میڈیا کے ایک ٹائیکون نے اس کے ساتھ جنسی ذیادتی کی تھی۔۔ اس وقت وہ اس کی مہنگی مہنگی کتابوں اور میوزیم لانچز کی پروموشن کیمپین بنا رہا تھا ۔۔ مذکورہ میڈیا ٹائیکون اس سے قد میں چھوٹا اور پاکستان کے طاقتور ترین میڈیا جائینٹس میں سے ایک ہے ۔۔ اس نے مزید تفصیل بتائی کے کس طرح وہ ذہنی کرب سے گزرا ، چھ ماہ اپنا ذہنی علاج کروایا ، بیرون ملک بھی گیا، کیسے وہ گھٹیا شخص اس کے باپ کی میت پر بھی آیا (اس کا باپ اس واقعہ سے آگاہ تھا) لیکن جامی اس کا کچھ نا کر سکا بلکہ جب تک وہ میت پر رہا وہ ایک کمرے میں چھپا رہا۔۔ اپنے باپ کو رو بھی نہ سکا ۔۔ اور یہ کہ کس طرح آج تک اس میں ہمت نہیں کے وہ نام لے سکے جب کے اس کے میڈیا کےسارے ساتھی جانتے ہیں  اور بھی تفصیلات ہیں آگے لیکن کسی کی ذرا سی سچی جھوٹی “می ٹو” سٹوری پر طوفان کھڑا کر دینے والا میڈیا اپنے اخبارات ٹی وی اور ٹویٹر اکاونٹس پر خاموش رہا اور ہے۔۔
جو تفصیلات اس نے بتائیں ان کو دیکھ کر لوگوں کا دھیان “ڈان گروپ” والے حمید ہارون کی طرف گیا ۔۔ اسی کی کتابیں ہیں اور میزیمز وغیرہ میں دلچسپی بھی رکھتا ہے ۔۔ یہ ٹھیک بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی لیکن پھر ہوا کچھ یوں کے ڈان والوں نے اس بارے میں پہلے “ایڈٹ” کر کے کچھ رہورٹنگ کی اور پھر تھوڑی دیر بات وہ ایڈٹ شدہ تفصیل بھی اپنی ویب اسپیس سے ہٹا دی۔۔ ڈان نیوز کے بڑے بڑے جغادری جو ٹویٹر پر مامے بنے رہتے ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی اس بارے میں ذکر تک نہیں کیا۔۔ لوگوں نے ٹیگ کر کر کے پوچھا لیکن خاموشی ۔۔ پھر امیجز میں دو دن بعد کچھ شائع ہوا لیکن وہ بھی بری طرح ایڈٹڈ جس پر جامی نے احتجاج کیا ۔۔ 
جنگ گروپ والوں نے بھی بالکل وہی رویہ اپنایا جو ڈان گروپ نے ۔۔ صرف ٹریبیون نے کوریج دی ۔۔ یہ معاملہ پاک و ہند کے کئی شوبز رسالوں اخباروں پر رپورٹ ہوا لیکن اگر خاموشی ہے تو پاکستان کے دو بڑے میڈیا ٹائیکونز یعنی میر شکیل اور حمید ہارون کے اخبارات و رسائل میں اور ان ہی دونوں کے نوکروں کی ٹویٹر ٹائم لائن پر ۔۔
شوبز والوں کی اپنی دنیا ذیادہ تر ان گھٹیا واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ ذیادہ تر ویسے ہی منافق ہیں۔ جامی سے مجھے کوئی لگاؤ نہیں اور نا ہی کسی قسم کی حیرانگی ہے ۔۔ ٹاپ لیول شوبز والوں کے آپسی معاملات انتہائی غلیظ ہیں ویسے ہی۔ یہ جامی بھی اسی دنیا کا حصہ ہے۔ اور اس کی ذاتی سوچ وغیرہ کے حساب سے مجھے بالکل بھی پسند نہیں ، بےکار انسان ہے۔ ہاں اس کا کام ٹی وی وغیرہ پر اچھا ہے۔ ساری دنیا کے معاملات پر فکر مندی کا ڈھونگ رچانے والے منافق کیسے خاموش ہیں۔۔ 
پاکستان میں دو ہی سب سے بڑے میڈیا ٹائیکون ہیں۔۔ جنگ گروپ اور ڈان گروپ ۔۔ دونوں کے مالکان مشکوک حرکتوں والے۔۔ دونوں کے نوکر اس “ان ٹرینڈ” می ٹو پر خاموش، جب کے ذرا سی بھنک پر “اسٹے اسٹرانگ” والے ٹویٹ اور ٹرینڈ چل جاتے ہیں۔۔ حمید ہارون کا اکثر نام لیا جا رہا ہے لیکن کسی نے اس کی نا تصدیق میں کچھ کہا نا تردید میں کے حمید ہارون کی طرف اشارہ نہیں۔۔ سارے پھنے خاں ٹئپ، ذرار کھوڑو، مبشر ذیدی وسعت اللہ خان وغیرہ وغیرہ سب چپ۔۔ یہ ابھی پچھلے ہفتے اسی قسم کے ایک ٹاپک پر (بلوچستان یونیورسٹی کے حوالے سے) بڑا فکر انگیز پروگرام کیا ، ٹویٹر پر بھی دکھی اور فکر مندی چلل رہی تھی ۔۔ لیکن اس معاملے ہر مکمل خاموشی ۔۔ یہاں تک بھی نہیں کہا کے ہو سکتا ہے جامی کسی اور کی بات کر رہا ہو پہلے تحقیق کر لیں ۔۔ کیونکہ شاید یہ لوگ جانتے ہیں کہ لوگوں کا دھیان ڈان گروپ والے بے غیرت حمید ہارون کی طرف غالباً بالکل ٹھیک جا رہا ہے ۔۔ اور اس کے خلاف جب ایک انتہائی مشہور جانا مانا ڈائیریکٹر جس پر بیتی ہے وہ کچھ کہ نہیں پا رہا تو، ان کی تو نوکریوں اور کیریئرز کا سوال ہے 😏۔۔
کہ دیکیۓ کہ اس پر بھی “سینسر شپ” لگ گئی ہے۔۔ بات بھی نہیں کی جا سکتی ۔۔ بولو نا ۔۔ نہیں بولینگے کیونکہ “حمید ہارون” ان کے کیرئیرز ختم کر سکتا ہے، یا کم از کم اپنے ادارے سے لاکھوں کی نوکریوں سے تو فارغ کر ہی دے گا ۔۔ اے پیا جے تواڈا “انقلابی صحافی” 😏

No comments:

Post a Comment